کالمزحیدر جاوید سید

ایک موت اور سہی …..حیدر جاوید سید

باردیگر معذرت بات کسی اور سمت نکل گئی ہم نے سٹریٹ جسٹس کے شوق و جنون سے بات شروع کی تھی جو حدودوقیود رکھتا ہے نہ دیکھتا ہے

ہماری رائے بہت سادہ اور عشروں سے یہی ہے کہ سٹریٹ جسٹس کی دیوانگی بالآخر سٹریٹ جسٹس کا ہی رزق بنتی ہے مگر اس کا کیا کیجے کہ یہاں دماغ سے سوچنے پرکھنے والے خال خال ہیں اور اندھی تقلید کی محبت میں گرفتار ہزارہا کیا یہ سب خواندگی کا عالمی معیار کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے ہے ؟
یاد پڑتا ہے ہم جماعت نہم کے طالبعلم تھے ایک دن ہمارے معلم سید عباس نقوی مرحوم و مغفور مرزا اسد اللہ خان غالب کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے رُکے اور گویا ہوئے ” عزیز طلبا عالمی ادارے یونیسیف کے مطابق خواندہ وہ ہے جو اخبار کی ہیڈ لائن پڑھ کر اس پر رائے دے ” تب یہ ارشاد عجیب لگا پھر عملی زندگی میں تو بہت ہی عجیب کیونکہ ہم نے اخبار کی سرخی نہ پڑھ سکنے والے ایسے ایسے دانشور مفتی و محدث اور فتوے باز دیکھے بھگتے جنہیں زعم تھا کہ دنیا ان کا پانی بھرتی ہے اور وہ سب جانتے ہیں
معاف کیجے گا یہ سب جانتے ہیں والی بات کو تحریر کے پس منظر میں دیکھیئے گا اس کا وہ مطلب ہرگز نہیں جو عموماً ان سطور میں عرض کرتا ہوں
ہم اسے بدقسمتی قراردے کر اپنے اپنے حصے کے جرم سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ شدت پسند تنظیموں کی فصل ریاست نے وقتاً فوقتاً کاشت کی تھی ، کیا ہم میں سے کسی نے کسی لمحے کسی بھی وجہ سے ان کی حمایت نہیں کی ؟ سوال تلخ ہے مگر آنکھیں چرانے کی بجائے سامنا کیجے یہ بہت ضروری ہے کیونکہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اپنے پُرکھوں کی طرح نفرتیں ورثے میں چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں یا مختلف سماج ؟
ایسا سماج جو محبتوں انصاف اور ایثار کے ساتھ دولت علم سے مالا مال ہو یہاں یہ بھی عرض کردوں علم محض روایتی جدید تعلیم نہیں یہ روایتی جدید تعلیم ملازم پیدا کرتی ہے سرکاری ملازمت کے خواہش مندوں کا لشکر جو ہمیشہ تنخواہ والے دن کا انتظار کرتا ہے اور ریٹائرمنٹ پر پنشن کا تنخواہ اور پنشن کا انتظار بری چیز ہے نہ طعنہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا جو حقِ محنت لیا جارہا ہے وہ ادا ہو پایا ؟
باردیگر معذرت بات کسی اور سمت نکل گئی ہم نے سٹریٹ جسٹس کے شوق و جنون سے بات شروع کی تھی جو حدودوقیود رکھتا ہے نہ دیکھتا ہے جب یہ نہ ہو تو حدودوقیود کی پاسداری نہیں ہوپاتی وجہ یہی ہے کہ جب ہم ہی حق پر ہیں کا سرطان نما مرض فرد گروہ یا سماج کو اپنی گرفت میں لے لے تو نجات کی صورت نہیں بن پاتی تب کچھ لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں جس نے گند ڈالا ہے وہ صاف کرے
ہمارا سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا ہم ( ہم سبھی ) اس صورتحال سے بری الذمہ ہیں ؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ” نہیں ” بلکہ اس میں ہم سبھی کا تھوڑا بہت حصہ ہے
لیکن اس کا کیا کیجے کہ تعصبات کا زہر نسوں اور سماج میں اتنی گہرائی تک اتر گیا ہے کہ ہم تعلق رکھنے اور جنازہ پڑھنے میں پہلے عقیدہ دیکھتے ہیں ، ایسا کیوں ہوا اس کی ایک وجہ تو وہی نفرت پہ ہوا بٹوارا ہے جسے ہمارے ہاں آزادی ملنا کہا جاتا ہے آزادی ایسی ہوتی ہے کیا جسکا ذائقہ 78 برسوں سے حلق میں کرواہٹ بھردے رہا ہے ؟
دوسری وجہ وہ قرارداد مقاصد ہے جسے ہم عمومی طور پر مسلم مکاتب فکر کی اجتماعی دانش کے شاہکار کے طور پر پیش کرتے ہیں یہ کیسی اجتماعی دانش ہے جس نے مملکت کا مذہب ڈیکلیئر کرتے وقت یہ سوچنے کی زحمت تک نہیں کی کہ آج کی دنیا اور تاریخ میں کوئی مذہب اپنے اندر سے نئے عقیدوں کے جنم کو نہیں روک پایا اس طور طے یہ ہوا کہ مذہب ہوگا تو عقیدہ بھی ہوگا یہ کہنا بذات خود فریب ہے کہ میرا کوئی عقیدہ نہیں ، ساعت بھر کیلئے رُکیئے ٹھنڈا پانی پیجئے اور لمبے لمبے سانس لیجے یہ کرچکیں تو سوچیئے کہ اگر ایک فرد اپنے عقیدے کی وجہ سے اسقدر سخت گیر ہوجاتا ہے کہ وہ دوسرے عقیدے والے شخص کی نماز جنازہ تک نہیں پڑھتا تو عقیدے کے بانس پہ چڑھ جانے والی ریاست کے لچھن کیا ہوں گے ؟
کامل یقین کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ نے سوچ لیا تو جو جواب ملے گا وہ آپ کے سترہ اٹھارہ طبق روشن و منور کردے گا ۔ ویسے کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ سب کیوں ہوا ؟ یقیناً آپ کا جواب ہوگا ” اجی یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے یہ سب اس نگوڑی ریاست کا کیا دھرا ہے ” ہے نا دلچسپ جواب لمحہ بھر کیلئے شاہ حسین کے مزار کے احاطے میں والہانہ رقص کرنے کو جی چاہتا ہے اس سادگی اور جواب پر ، خدا کے بندو ہم بھی اتنے ہی مجرم ہیں جتنی ریاست
اس لیئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک ہم اپنے حصے کا جرم قبول کرکے ندامت محسوس نہیں کرتے اور اپنے رویوں سے متاثر ہونے والے بہن بھائیوں سے معذرت نہیں کرتے اصلاح احوال کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھا پائیں گے
سٹریٹ جسٹس کا شوق اور جنون جس کو لگ جائے وہ ایک ہی وقت میں مدعی وکیل استغاثہ منصف اور جلاد کے ساتھ محدث دوراں ہونے کے زعم کا شکار نہیں ہوتا بلکہ بن کر دکھاتا ہے آپ ذرا بہت زیادہ نہیں صرف دواڑھائی عشروں کے شب و روز کو ذہن میں لائیے ان گزرے شب و روز کی تاریخ کو الٹیئے اور یاد کیجے ہمارے چار اور کیا کیا ستم نہیں ڈھائے گئے ؟
چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح نو اپیل نو دلیل نو وضاحت بس سیدھا سرتن سے جدا زندہ جلادو یہاں کیا یہ عرض کردوں کے اس سٹریٹ جسٹس میں بھی منافقت کا راج تھا بندہ بشر قابل گردن زدنی رہا اور مولوی و مولوی زادے کو خطائے اجتہادی کی چھتری عطا ہوئی
یہ مثال صرف رواج پاچکی عمومی منافقت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے پیش کی ہے ورنہ ایک قانون پسند شہری کے طور پر قانون کی حاکمیت کو جھلاہٹوں میں دیئے جانے والے فتووں اور سٹریٹ جسٹس پر ہرحال میں مقدم اور درست جانتا ہوں

اب آئیے کالم کے اس حصے میں اس بات پر غور کریں کہ 25 کروڑ لوگوں سے بنا یہ سماج جہاں آج کھڑا ہے یہ کوئی قانلِ فخر یا قابلِ ذکر مقام ہے ؟
مجھ طالبعلم کا جواب نفی میں ہے میری دانست میں یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے سادہ لفظوں میں اجتماعی خودکشی کا پڑاو ہے لیکن اگر ہم اجتماعی خودکشی اور ڈوب مرنے سے بچنا چاہتے ہیں اور جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کیا کہ یہ سوچنا چاہتے ہیں کہ ہمیں پُرکھوں سے ملا نفرتوں کا ورثہ اگلی نسلوں کو دینا ہے یا عالمگیر محبت کا پیغام کامل کہ انسانیت افضل ہے انسان ہونا اہم ہے سماج انسانوں سے تشکیل پاتا ہے درندے جنگلوں میں بستے ہیں تو پھر واجب ہے کہ مصلحت بھری چُپ کا روزہ توڑ کر اناالحق کی صدا بلند کیجے
آپ بس اپنے حصے کی صدا بلند کیجے آواز سے آواز ملے گی صداوں سے صدائیں جہل کے اندھرے کو یقین کے نور سے کاٹا جاسکتا ہے فیصلہ آپ کو کرنا ہے زندہ رہنا ہے تو جہل کے اندھیرے کو کاٹنے کیلئے حصہ ڈالیں ورنہ مرتو ہر لمحہ رہے ہیں ایک موت اور سہی
معاف کیجے گا تمہیدی سطور کچھ زیادہ طویل ہوگئیں کالم کا بڑا حصہ تمہید میں نبھ گیا یہ سطور یا کالم لکھنے کی وجہ مرید کے میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنا مارچ کا افسوسناک اختتام ہے جو ہوا وہ نہ ہوتا تو بہتر تھا اس افسوسناک واقعہ کے دودن بعد جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں چاراور ایک عجیب سی بے یقینی کی گرد چھائی ہوئی ہے
سچ کیا ہے کچھ پتہ نہیں البتہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مذکورہ تنظیم نے حماس اسرائیل جنگ کے آغاز سے حالیہ امن معاہدہ تک کے درمیانی دوبرسوں کے دوران ملک میں اس حوالے کوئی مرکزی یا صوبائی سطح کی سرگرمیاں نہیں کیں لیکن امن معاہدہ ہونے کے بعد حکومت پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا الزام لگا کر غزہ مارچ کا اعلان کردیا جسکی بظاہر ضرورت نہیں تھی
اس مارچ کا آغاز ہی خون سے ہوا تنظیم کے کارکنوں نے ایک پولیس اہلکار کو قتل کیا اور یہ دعویٰ بھی کہ پولیس نے اس کے متعدد کارکن مار دیئے ہیں اب دھرنے کے افسوسناک اختتام پر بھی طرفین کے دعوے ہیں ان دعووں تشدد اور طوفان نے اس کہانی کو چھپا دیا جو اٹلی میں چند پاکستانیوں کی گرفتاری سے شروع ہوئی اور اس کے تانے بانے دھرنا مارچ والی تنظیم کے بعض قائدین سے مل رہے تھے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button