کالمزناصف اعوان

دُکھ سانجھے ہوتے ہیں ؟……ناصف اعوان

یہ اسی گروہ کی پیدا کردہ ہے جو زر وجواہر کو سمیٹتا چلا جا رہا ہے جائز طریقے سے بھی اور ناجائز طریقے سے بھی۔ یوں بہتی گنگا میں چند لوگ اپنے ہاتھ دھوتے چلے جا رہے ہیں اور انسانی مسائل کا سبب بن رہے ہیں ۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دولت ہر انسان کی ضرورت ہے اس کے بغیر زندگی بسر کرنا ناممکن ہےکیونکہ اس سے سامان زیست خریدا جاتا ہے ۔رہنے کے لئے چھت تعمیر کی جاتی ہے۔ بیمار پڑ جائیں تو دوا لینا پڑتی ہے جو پیسوں کے بنا حاصل نہیں ہوتی یعنی قدم قدم پر اس کا ساتھ ہونا لازمی ہے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے اسے دوسروں سے چھینا جائے دھوکا دہی کے ذریعے ان سے ہتھیایا جائے پھر اپنی تجوریاں بھرنے کےلئے مرتے دم تک کوشش کی جائے ۔بندے کو بس یہ اتنی ہی چاہیے ہوتی ہے کہ جس سے اس کا اچھا گزارا ہو جائے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں بہ آسانی حاصل ہو سکیں کسی سے ادھار نہ لینا پڑے ۔ اس سے زیادہ کیا چاہیے مگر نہیں اس پر اکتفا نہیں کیا جاتا۔ سماج کےاندر موجود ایک گروہ دولت کے انبار لگانے میں مصروف ہے وہ لاکھوں سے کروڑوں کروڑوں سے اربوں‘ اربوں سے کھربوں اور کھربوں سے کھرب ہا تک جانا چاہتا ہے جس کے لئے وہ اپنی تمام تر توانائیاں عیاریاں مکاریاں ہتھکنڈے اور حربے استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ اس کے اِس طرز عمل سے سماجیات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے پورے سماجی ڈھانچے کو افلاس اور غربت کے بھنور میں الجھا دیا ہے ۔لوگ پیٹ پالنے کے لئے اپنے جسم کی ہی نہیں اپنے اعضا تک کی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ان کی صلاحیتیں دب کر رہ گئی ہیں ان میں آگے بڑھنے کا جزبہ سرد پڑ چکا ہے وہ تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہو رہے ہیں دواؤں کی عدم دستیابی و کمیابی نے انہیں سسک سسک کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ ان میں احساس بیگانگی واحساس محرومی نے ڈیرے جما لئے ہیں۔وہ آئے روز کی مہنگائی کے ہاتھوں گھائل ہو رہے ہیں کیونکہ یہ اسی گروہ کی پیدا کردہ ہے جو زر وجواہر کو سمیٹتا چلا جا رہا ہے جائز طریقے سے بھی اور ناجائز طریقے سے بھی۔ یوں بہتی گنگا میں چند لوگ اپنے ہاتھ دھوتے چلے جا رہے ہیں اور انسانی مسائل کا سبب بن رہے ہیں ۔
جبکہ انہیں سوچنا چاہیے کہ دولت کتنی ہی کیوں نہ ہو وہ کھائی تو نہیں جا سکتی اس سے اشیائے ضروریہ ہی خریدی جاتی ہیں تاکہ پیٹ بھرا جا سکے ۔سونا بھی بستر پر ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی خوبصورت اور قیمتی کیوں نہ ہو مگر کون ایسا سوچتا ہے اور کون ایسا چاہتا ہے لہذا ایک دوڑ لگی ہوئی ہے پیسے کے حصول کی۔ اس دوڑ میں اخلاقیات رواداری اور اقدار کی کوئی حثیت نہیں ۔ پھر سماج کا یہ گروہ یاطبقہ آپس میں بھی کسی نہ کسی الجھاؤ میں الجھا رہتا ہے ایک دوسرے پر برتری لے جانا چاہ رہا ہوتا ہے اس کے لئے وہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا بھی ضروری سمجھتا ہے ۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ پیسا انسانیت کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے مگر سب اہل زر ایسے نہیں ہوتے ۔اپ بل گیٹس کو دیکھ لیں وہ دنیا بھر میں اپنی کمائی ہوئی دولت سے انسانیت کی خدمت بھی کر رہے ہیں اور ان کی اپنی زندگی سادہ ہے اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں مگر زیادہ تر سرمایے کی گاڑی پر سوار ہیں اور آگے ہی آگے چلے جا رہے ہیں ۔ دراصل ان کے ذہنوں میں یہ بات بھی بیٹھی ہوئی ہے کہ عام لوگوں کو وہ سہولتیں نہیں دینا جو انہیں میسر ہوں کیونکہ اس طرح تووہ ان کے برابر آ کھڑے ہوں گے اور ان کا سوشل سٹیٹس نیچے آجائے گا جبکہ وہ ان سے اعلیٰ ہیں لہذا وہ غربت بھوک اور دوسرے مسائل کو ایک ایک کرکے پیدا کرتے رہتے ہیں اور انہیں دھیرے دھیرے تھوڑا تھوڑا حل بھی کرتے رہتے ہیں اس طرح ان کو تسکین ملتی ہے اسی تسکین کی خاطر وہ کیا کیا جتن‘ کیا کیا منصوبے ‘کیا کیا ہیرا پھیریاں اور کیا کیا حکمت عملیاں اپناتے ہیں مگر ان کے اس رویے اور سوچ کے انداز سے معاشرے میں گھٹن لاتعلقی نفرت اور عدم برداشت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو انتہائی قابل تشویش ہے مگر یہ صورت حال تادیر قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ جب ایک گروہ امیر ہوتا جاتا ہے تو دوسرا جسے عوام کہتے ہیں وہ متحد ہونے لگتا ہے اور کوئی لائن آف ایکشن طے کر لیتا ہے پھر اس کے مطابق عمل کا آغاز کر دیتا ہے۔
بہر حال ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم مل کر ایک ایسا سماج تشکیل دیں جس میں ایک دوسرے کے دکھ سانجھے ہوں ہر کوئی سکھ چین سے جئیے نجی ملکیت کم سے کم ہو۔ تعلیم صحت مفت کر دی جائے انصاف کو آسان اور سستا بنا دیا جائے۔ میرٹ پالیسی پر سختی سی عمل درآمد ہو ۔عرض کرنے کا مقصد دولت کے مراکز تبدیل ہوں زیادہ تر سرکاری ہاتھوں ہی میں اس کا ارتکاز ہو اگرچہ یہ ہمارا طفلانہ سا خیال ہے مگر ایسا ناممکن نہیں کیونکہ دنیا کا مجموعی طور سے مزاج تبدیل ہو رہا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی یہ حالت ایسی نہیں رہے گی۔ بے شک اہل زر اپنے مقابل عام لوگوں کو خوشحال ہونے نہیں دینا چاہتے انہیں جھکے ہوئے سروں کے ساتھ اپنے سامنے کھڑا دیکھنے کے خواہشمند ہیں مگر ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ ایک دن ضرور تبدیل ہوں گے کیونکہ انہیں دولت سے بس اتنی ہی دلچسپی ہو گی جتنی ان کی زندگیاں پر آسائش و پر سکون گزر سکیں ۔اس کی ایک وجہ جہاں ان کے اندر کی تبدیلی ہو گی تو وہاں عوامی دباؤ بھی ان پر ہو گا بہر کیف عوامی مسائل ایک مخصوص لوگوں کے پیدا کردہ ہیں ۔ وہ اپنی بقا کے لئے کبھی معیشت کا سہارا لیتے ہیں اور کبھی اختیارات کو حاصل کرتے ہیں ۔ شاید ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی برتری قائم نہیں رکھی تو وہ ”لکھوں ککھ“ ہو جائیں گے کیونکہ عوامی برتری کا مطلب ان کی شکست ہے اور ان کی بد حالی ہے جبکہ ایسا نہیں ان کے مابین غلط فہمی کی ایک خلیج حائل ہے جسے محبت خلوص اور دیانت سے ختم کیا جا سکتا ہے مگر یہ محض ہمارا خیال ہے سماج کا سہل پسند اور دولتمند طبقہ اس کے لئے تیار نہیں وہ مل جل کر رہنے کے تصور سے کوسوں دور دکھائی دیتا ہے اور کسی جانے انجانے خوف میں مبتلا ہے لہذا ان کی امارت اوپر ہی اوپر جا رہی ہے اور غربت روز بروز نیچے مگر آخر کار اسے ختم ہو کر رہنا ہے کیونکہ مال و متاع اکٹھا کرنے والے ہاتھ تھک جاتے ہیں یا پھر روک دئیے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک ایسا معاشرہ قائم ہوتا ہے جس میں واقعتاً دکھ سانجھے ہوتے ہیں ۔!

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button