
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
اسلام آباد: مئی 2025 میں قائم کی گئی قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی (NCCIA) جس کا بنیادی مقصد پاکستان میں آن لائن جرائم کی روک تھام اور سائبر سکیورٹی کو مضبوط بنانا تھا، اب خود شدید بحران سے دوچار ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وہی ادارہ جو ڈیجیٹل سکیورٹی کا محافظ تھا، اب اپنے ہی اعلیٰ افسران کے پراسرار اغوا کے واقعات کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔
چھ افسران لاپتہ، تحقیقات جمود کا شکار
موصولہ معلومات کے مطابق، اب تک این سی سی آئی اے کے چھ اعلیٰ افسران مختلف شہروں سے لاپتہ ہو چکے ہیں، جن میں لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور اسلام آباد کے افسران شامل ہیں۔ سب سے سنگین واقعہ حال ہی میں اسلام آباد میں پیش آیا، جہاں ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز محمد عثمان کو 14 اکتوبر کی شام ایچ-13 میں ان کی رہائش گاہ کے قریب سے اغوا کیا گیا۔
اسلام آباد اغوا کیس: پولیس کو تین دن کی مہلت
اسلام آباد ہائی کورٹ میں مغوی افسر کی اہلیہ روزینہ عثمان کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس محمد اعظم خان نے پولیس کو سختی سے ہدایت کی کہ تین روز میں مغوی کو بازیاب کرایا جائے، ورنہ این سی سی آئی اے کے مرکزی ڈائریکٹر اور آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔
درخواست گزار کے وکیل راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ مغویہ پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور اب ان کی سلامتی کے بارے میں بھی خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ انہوں نے عدالت کو مطلع کیا کہ اغوا کے واقعے میں استعمال ہونے والی گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی نکلی ہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے:
"اگر گاڑی جعلی نمبر پلیٹ کے ساتھ شہر میں گھوم رہی ہے تو سیف سٹی کیمروں، ناکوں اور پولیس کی موجودگی کے باوجود یہ ممکن کیسے ہوا؟”
پولیس اور اٹارنی جنرل کا موقف
اسلام آباد پولیس نے عدالت سے سات دن کی مہلت طلب کی، لیکن عدالت نے صرف تین دن کی مہلت دی اور کیس کی غیر معمولی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ اس میں ریاستی عملداری کا سوال ہے۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مقدمہ درج کیا جا چکا ہے، اور تفتیش جاری ہے، تاہم اب تک کسی بھی مشتبہ شخص کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔
قانونی ماہرین کا ردعمل: ریاست کی ناکامی؟
ریٹائرڈ کرنل اور قانونی ماہر انعام الرحیم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"اگر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ایک حساس ریاستی ادارے کے افسران دن دہاڑے اغوا ہو رہے ہیں، تو یہ ریاستی اداروں کی رٹ پر ایک براہِ راست حملہ ہے۔ یہ نہ صرف عدلیہ بلکہ پارلیمنٹ، سیکورٹی اداروں اور عوام کے لیے ایک گہری تشویش کا مقام ہے۔”
ترجمان NCCIA کی خاموشی، معاملہ پراسرار بنتا جا رہا ہے
اردو نیوز نے این سی سی آئی اے کے ترجمان اور ڈائریکٹر جنرل سے رابطہ کیا، مگر تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ ادارے کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی نے سوشل میڈیا اور پالیسی حلقوں میں چہ میگوئیوں کو جنم دے دیا ہے۔
پہلے بھی لاپتہ ہونے والے افسران
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ ہفتے لاہور سے ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے تھے۔ اسی طرح گوجرانوالہ اور راولپنڈی سے بھی NCCIA کے سینئر افسران مبینہ طور پر اغوا ہو چکے ہیں، مگر ان کیسز کی پیش رفت کے بارے میں حکام کی جانب سے کوئی خاطر خواہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
تجزیہ: ڈیجیٹل پاکستان یا ڈیجیٹل خطرہ؟
ایسی صورتحال میں جب پاکستان سائبر سکیورٹی اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے کے دعوے کر رہا ہے، خود سائبر کرائم ایجنسی کے افسران کا لاپتہ ہونا ایک سنگین سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ یہ واقعات محض جرائم یا حادثات نہیں، بلکہ ریاستی نظم و ضبط اور شفاف حکمرانی کے امتحان بن چکے ہیں۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو نہ صرف عوام کا اعتماد اداروں سے اٹھ جائے گا، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ڈیجیٹل سیکورٹی اور ادارہ جاتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
نتیجہ: ریاست کو جاگنے کی ضرورت
حالیہ واقعات ریاست کے لیے ایک الارم بیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدلیہ اور پارلیمان مل کر ایک موثر، شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقاتی عمل کو یقینی بنائیں، تاکہ نہ صرف مغوی افسران کو بازیاب کرایا جا سکے بلکہ عوام کا اداروں پر اعتماد بھی بحال ہو سکے۔