کالمزحیدر جاوید سید

صحافت اور کاروبار ……حیدر جاوید سید

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم آخر ایسے کیوں ہیں مجھے اپنے سوال کا جواب معلوم ہے لیکن پھر بھی سوچتا ہوں

پی ایف یو جے ،صحافیوں کی مرکزی تنظیم جس کے بارے میں آج ہم فقط یہ کہہ سکتے ہیں کہ ” اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا ” اسی پی ایف یو جے کا دستور کبھی کہتا تھا ، عامل صحافی وہ ہے جسکا باورچی خانہ تنخواہ سے چلتا ہو لیکن اب یہ پرانی بات ہے کیونکہ اخباری ادارے یا چینلز وغیرہ عامل صحافی کو جو حق خدمت دیتے ہیں اس سے مہینہ کیسے گزرتا ہے یہ عامل صحافی اچھی طرح جانتے ہیں ہماری نسل جب کوچہ صحافت میں قلم مزدوری کیلئے اتری تو اساتذہ نے بتایا سمجھایا صحافت ایک مقدس کام ہے ایک صحافی کا فرض یہ ہے کہ وہ ذات پات دھرم عقیدے سیاسی و شخصی پسند کی گھمن گھیریوں میں الجھے بغیر اپنے فرائض ادا کرے استاد مکرم سید عالی رضوی مرحوم کے بقول عامل صحافی قلم مزدور ہوتا ہے میڈیا منشی نہیں ، چلیں اس بحث سے دامن بچا کر آگے بڑھتے ہیں کہ عامل صحافی اور میڈیا منشی میں فرق کیا ہے کیونکہ بات اب منشی گیری سے آگے بڑھ کر جانبازوں تک جاپہنچی ہے اور بھانت بھانت کے ان دستیاب جانبازوں کا خیال ہے کہ صحافت صرف یہ کررہے ہیں یہی آزادی صحافت و اظہار کے پاسبان ہیں ، یہ بات کتنی درست اور کتنی غلط ہے اس پر مکالمہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن جس سماج میں نام سے عقیدے کا فیصلہ ہوتا ہو اور پاپولر ازم کے چکڑ چھولے منٹوں میں بک جاتے ہوں وہاں مکالمے کا وقت کس کے پاس ہے دوتین دن ادھر ایک بھگوڑے یوٹیوبر نے ایک خاتون صحافی کی تصویر اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر شیئر کرکے دوسستے جملے اچھالے ان کی اس پوسٹ پر کمنٹس کرنے والے عقیدت مندانِ اخیرالمومنین نے نہ صرف اس خاتون صحافی بلکہ چند دیگر خواتین صحافیوں کا نام لے کر ایسے ایسے گھریلو انکشاف کرڈالے کہ اللہ توبہ ، یہ ہمارا عمومی مزاج ہے پاپولر ازم کا شکار صحافی یا یوٹیوبر بھی تو اسی سماج کے خمیر سے اٹھے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہاں بکتا کیا ہے اور چلتا کیا ہے بات دور نکل گئی عرض یہ کرنا چاہتا تھا کہ ہمارے ہاں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو صرف اپنی مرضی کی بات سننا چاہتے ہیں یہ نہ ہو تو کھٹ کہہ دیتے ہیں بکاو مال ٹوڈی دوسرے وہ جنہوں نے ہرحال میں سوقیانہ جملہ اچھالنا ہوتا ہے آپ ان دونوں کو کہہ کچھ نہیں سکتے کیونکہ ہردو کا خیال ہے کہ وقت نے ساتھ نہیں دیا ورنہ وہ پیدا جہانوں کی رہنمائی کیلئے ہوئے تھے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم آخر ایسے کیوں ہیں مجھے اپنے سوال کا جواب معلوم ہے لیکن پھر بھی سوچتا ہوں ہمارے ایک استادمحترم جناب فضل ادیب کہا کرتے ہیں ” صاحبزادے کبھی کسی کو غلط قرار دینے سے پہلے ٹھنڈے دل سے یہ ضرور سوچ لیا کرو کہ کہیں تم تو غلط نہیں ” استاد محترم زندہ ہوتے تو میں ان کے گھٹنے چھوکر ہاتھوں کو بوسہ دیتا ادب سے سر جھکا اور ہاتھ باندھ کر عرض کرتا ۔ اجازت دیجئے کہ کسی بلند مقام پر باآواز بلند بلکہ چیخ کر کہوں ” لوگوں دوسروں کی آنکھ میں جوتوں سمیت گھسنے اور انہیں غلط کہنے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانک لو ” مجھے یقین ہے استاد محترم کا ارشاد یہی ہوتا صاحبزادے پہلے خود ٹھنڈے دل سے سوچ لو کہیں تم تو غلط نہیں ، یہ ہماری نسل کو جو اساتذہ نصیب ہوئے وہ عجیب و غریب لوگ تھے شاگرد انہیں اولاد سے زیادہ عزیز و محبوب ہوتے ان کی کوشش ہوتی جو جانتے ہیں اور جو سیکھا ہے دونوں شاگردوں کو گھوٹ کر پلادیں اب ویسے استاد کہاں نصیب ہوتے ہیں آج تو ہر شخص استاد ہے اور سینئر بھی ، سینئر سے یاد آیا دودن اُدھر کی شب کچھ دوست گپ شپ کررہے تھے عین اس وقت ایک چینل کے پروگرام میں تین عدد سینئر صحافی گفتگو کیلئے موجود تھے تب محفل میں موجود ایک دوست نے دریافت کیا شاہ جی یہ سب سینئر صحافی ہیں کوئی جونیئر صحافی بھی ہوتا ہے ؟ میں عرض کیا اب سب سینئر پیدا ہوتے ہیں اس پر قہقہے گونجنے لگے ، اچھا غلط بات بھی نہیں یہاں قطار میں باری کا انتظار کون کرتا ہے سب کو جلدی ہے معمولی سی تاخیر نجانے کتنا نقصان کردے ان سموں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں میں سفر میں ہوں لاہور سے اپنے جنم شہر ملتان جارہا ہوں صبح جب گھر سے نکل رہا تھا تو اہلیہ نے دریافت کیا واپسی کب ہوگی ؟ عرض کیا جمعہ کو انہوں نے انگلیوں کی پوروں پر دن شمار کیئے اور بولیں پانچ دن آپ گھر سے باہر رہیں گے ؟ میں نے کہا یار آزادی کے پانچ دن گزرتے پتہ نہیں چلنا ، لفظ آزادی پر اہلیہ نے گھور کر دیکھا عین اس وقت ایک فون آگیا جس سے بات بدل گئی ورنہ اس معمر و سینئر صحافی کے ساتھ وہی ہوتا جو کہانی ہے گھر گھر کی یہ جو کہانی ہے گھر گھر کی اس پہ دودن اُدھر دوستوں کے پنجتنی کٹھ میں تفصیل سے بات ہوئی اتنی تفصیل سے کہ یہاں ایک آدھ جملہ بھی لکھیں تو ہم خود کہانی بن جائیں خیر جانے دیجئے ہم واپس اپنے موضوع کی طرف پلٹتے ہیں ہمارے بعض صحافی دوست کہتے ہیں کوچہ صحافت میں یہ افرا تفری اور میڈیا منیجری دونوں جنرل ضیا الحق کے دور میں آئے بہرحال جب بھی آئے ہوں ان دونوں کی وجہ سے صحافت کادھڑن تختہ ہوگیا میں اپنے ان دوستوں سے ہمیشہ کہتا ہوں شاید ہمارے اساتذہ کو ادراک نہیں تھا جس کام کو وہ مقدس اور سماج کے شعوری ارتقا کیلئے بنیادی ضرورت سمجھتے یہ ایک دن کاروبار بن جائے گا ہمارے چار اور صحافت کے نام پر کاروبار ہی تو ہورہا ہے مارکیٹ میں جس چیزکی مانگ ہو وہی بکتی ہے سچ اور جھوٹ نہیں دیکھے سمجھے جاتے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ دکان کی رونق کیسے برقرار رہے گی دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ جھوٹ خریدتے بھی ہیں بیچنے اور خریدنے والوں میں سے کوئی بھی رتی برابر شرمندہ نہیں ہوتا پاکستانی سیاست ہو یا صحافت ہردو میں نظریہ اور سماج سدھاری کے جذبات اب خاصے کی چیز بن کر رہ گئے ہیں آپ کہہ سکتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے لیکن کیا محض یہ کہہ دینے سے حقیقت بدل جائے گی ؟ میری دانست میں تو بالکل بھی نہیں خیر اس موضوع اٹھا رکھیئے ایک اور دلچسپ موضوع پر بات کرتے ہیں پنجاب حکومت نے گورنمنٹ کالج کھاریاں کی عمارت پر پاکستانی پرچم کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی تصویر والا جھنڈا لگانے پر پرنسپل کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے یہ نوٹس کالج کی عمارت پر وزیر اعلیٰ کی تصویر والے جھنڈے کی ویڈیو وائرل ہونے اور شور شرابے کے بعد جاری ہوا ہماری رائے میں پرنسپل کے خلاف نوٹس کے بعد جوبھی کارروائی ہو لیکن ان کا نفسیاتی معائنہ ضرور کرایا جائے تاکہ یہ تو پتہ لگے کہ یہ صاحب اس منصب تک پہنچے کیسے ؟ پنجاب حکومت نے اس معاملے کا نوٹس لیا اچھی بات ہے ایک نوٹس اور بھی لینا چاہئے وہ سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرین کی حالت کا جو ہرگزرنے والے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button