
میثاق سنٹرز کا قیام: اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور بین المذاہب ہم آہنگی کی جانب لاہور پولیس کا انقلابی قدم
لاہور پولیس تمام مذاہب اور طبقات کے شہریوں کو بلا امتیاز خدمات کی فراہمی پر یقین رکھتی ہے۔
ڈاکٹر اصغر واہلہ-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
لاہور: پاکستان میں اقلیتوں کو درپیش سماجی، قانونی اور ادارہ جاتی چیلنجز کے تناظر میں لاہور پولیس کی جانب سے "میثاق سنٹرز” کا قیام ایک اہم اور قابلِ تقلید پیش رفت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ مراکز نہ صرف اقلیتی برادری کو درپیش مسائل کے فوری حل کے لیے قائم کیے گئے ہیں بلکہ ان کا مقصد معاشرتی انصاف، مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی ہے۔
قانونی خدمات کا دائرہ کار وسیع، رسائی آسان
لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق، رواں سال کے دوران میثاق سنٹرز نے 3457 سے زائد اقلیتی شہریوں کو مختلف قانونی، فلاحی اور انتظامی خدمات فراہم کی ہیں۔ ان خدمات میں کریکٹر سرٹیفکیٹ کا اجرا، پولیس ویری فکیشن، گمشدگی کی رپورٹس، کریمینل شکایات کی اندراج اور بے وسیلہ افراد کے لیے قانونی معاونت شامل ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق:
635 غیر مسلم شہریوں کو کریکٹر سرٹیفکیٹس جاری کیے گئے۔
دیگر اضلاع سے آنے والے 127 افراد کو بھی یہی سہولت فراہم کی گئی۔
2101 اقلیتی شہریوں کی پولیس ویری فکیشن کی گئی جبکہ دیگر اضلاع کے 367 شہریوں کو بھی یہ سہولت میسر آئی۔
سال 2025 کے دوران 55 گمشدگی رپورٹس، 111 کریمینل رپورٹس اور 36 بے وسیلہ افراد کی شکایات درج ہوئیں۔
اقلیتی اہلکاروں کی شمولیت: ادارہ جاتی شمولیت کی مثال
میثاق سنٹرز کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں اقلیتی پولیس اہلکاروں کو بھی تعینات کیا گیا ہے تاکہ اقلیتی سائلین کو ایک مانوس اور قابلِ بھروسہ ماحول میسر آ سکے۔ یہ اقدام نہ صرف اعتماد سازی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ لاہور پولیس کی اس پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جو ادارہ جاتی سطح پر مساوی نمائندگی اور شمولیت کو فروغ دیتی ہے۔
سی سی پی او لاہور کا مؤقف: ’’ہر شہری برابر ہے‘‘
سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ:
"لاہور پولیس تمام مذاہب اور طبقات کے شہریوں کو بلا امتیاز خدمات کی فراہمی پر یقین رکھتی ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ ہر شہری کو برابری کی بنیاد پر قانونی معاونت، تحفظ اور انصاف فراہم کیا جائے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ اقلیتی برادری کو ان کے گھروں کے نزدیک قانونی خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے تاکہ انہیں بڑے تھانوں یا دفاتر کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔ ان کے مطابق، میثاق سنٹرز اقلیتوں کی خدمت کا مرکزی اور مؤثر پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔
بلال صدیق کمیانہ نے واضح کیا:
"ہم عبادت گاہوں کے تحفظ سے لے کر ہر قانونی و سماجی معاملے تک اقلیتوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یہ مراکز صرف شکایت درج کرانے کی جگہ نہیں بلکہ ریاستی اداروں پر اقلیتوں کے اعتماد کی علامت ہیں۔"
میثاق سنٹرز: ایک وژن، ایک مشن
میثاق سنٹرز کا قیام حکومتِ پنجاب اور لاہور پولیس کی اس ہم آہنگ پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد اقلیتوں کو معاشی، سماجی اور قانونی تحفظ کی فراہمی ہے۔ ان مراکز میں نہ صرف شکایات کی سماعت ہوتی ہے بلکہ سائلین کو رہنمائی، مشاورت اور فوری ریلیف بھی دیا جاتا ہے۔
یہ مراکز اس وژن کا عملی مظہر ہیں کہ ’’پاکستان سب کے لیے‘‘ ہے – چاہے کوئی مسلمان ہو، ہندو، سکھ، عیسائی یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔
سماجی ماہرین اور شہریوں کا ردعمل
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں اقلیتیں عموماً حاشیے پر چلی جاتی ہیں، ایسے اقدامات نہایت حوصلہ افزا ہیں۔ معروف سماجی کارکن رابیل گل نے کہا:
"میثاق سنٹرز جیسا ماڈل ملک بھر میں اپنایا جانا چاہیے۔ جب اقلیتوں کو ان کی آواز، نمائندگی اور تحفظ ملے گا، تب ہی حقیقی قومی یکجہتی ممکن ہے۔"
شہر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اقلیتی شہریوں نے ان مراکز کی خدمات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں "ریلیف اور امید کی کرن” قرار دیا۔
نتیجہ: ایک روشن مثال
میثاق سنٹرز نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر نیت صاف ہو اور وژن مضبوط، تو ادارے بھی تبدیل ہو سکتے ہیں اور معاشرہ بھی۔ لاہور پولیس کا یہ اقدام نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی، سماجی انصاف اور ادارہ جاتی شمولیت کی ایک روشن مثال ہے۔
اب وقت ہے کہ باقی شہروں کی پولیس اور حکومتیں بھی اس ماڈل سے سیکھیں اور اپنے اپنے علاقوں میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ایسے ہی مراکز کا قیام عمل میں لائیں، تاکہ پاکستان واقعی قائداعظم کے وژن کے مطابق ایک مساوی، منصفانہ اور متحد ملک بن سکے۔