
تحریر: خصوصی نمائندہ / تجزیاتی رپورٹ
پاکستان میں اکثر شہری گاڑیوں کے معیار، سکیورٹی فیچرز اور حفاظتی انتظامات پر سوال اٹھاتے ہیں، مگر اب یہی بحث سیاسی تنازع کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
خیبر پختونخوا کی نئی حکومت اور وفاقی وزارتِ داخلہ کے درمیان بلٹ پروف گاڑیوں کے معیار اور فراہمی کے معاملے پر لفظی جنگ چھڑ گئی ہے۔ اس تنازع نے نہ صرف مرکز اور صوبے کے تعلقات میں تناؤ پیدا کیا ہے بلکہ بلوچستان کی حکومت بھی اب اس میں شامل ہو چکی ہے۔
تنازع کی ابتدا — وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی مزاحمتی سیاست کا آغاز
چند دن قبل ہی حلف اٹھانے والے خیبر پختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی (تحریکِ انصاف) نے وزارتِ داخلہ کی جانب سے صوبائی پولیس کو فراہم کی جانے والی بلٹ پروف گاڑیوں کو غیر معیاری قرار دیتے ہوئے واپس بھجوانے کی ہدایت کی۔
ان کے اس فیصلے نے وفاقی سطح پر ایک نئی بحث چھیڑ دی۔
ذرائع کے مطابق وزارتِ داخلہ نے پولیس کے لیے تین بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی تھیں، جنہیں بین الاقوامی سکیورٹی اسٹینڈرڈز کے مطابق تیار کیا گیا تھا۔ تاہم وزیراعلیٰ نے کہا کہ “ان گاڑیوں کی موٹائی، گلاس شیلڈنگ، اور بلٹ پروف معیار صوبے کی خطرناک سکیورٹی صورتحال کے لیے ناکافی ہیں۔”
ان کے اس بیان کو سیاسی مزاحمت کے ایک نئے باب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ سہیل آفریدی ماضی میں بھی وفاقی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
وفاقی ردعمل — “گاڑیاں عالمی معیار کے مطابق ہیں”
اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیرِ مملکت طلال چوہدری نے کہا:
“وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا یہ اقدام غیر ذمہ دارانہ ہے۔ یہ گاڑیاں اسی معیار کی ہیں جنہیں وفاقی وزرا، آئی جی اسلام آباد، اور حساس اداروں کے سربراہان استعمال کر رہے ہیں۔”
انھوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے سے پولیس اہلکاروں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کیونکہ “اگر بلٹ پروف گاڑیاں واپس کر دی گئیں تو دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران اہلکار غیر محفوظ رہ جائیں گے۔”
وزارتِ داخلہ کے مطابق، گاڑیاں “B6 لیول” بلٹ پروف اسٹینڈرڈ پر تیار کی گئی ہیں — یعنی یہ 7.62mm رائفل فائر اور دھماکوں کے ابتدائی جھٹکے برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
تحریک انصاف رہنماؤں کی حمایت
سہیل آفریدی کے اقدام کو تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے کھل کر سراہا گیا۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا:
“یہ وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ وہ صوبوں کو بہترین سکیورٹی سہولت دے۔ ناقص گاڑیاں بھیج کر وفاق اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا۔”
تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں نے بھی کہا کہ مرکز صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہا ہے اور یہ تنازع اس طرزِ عمل کی علامت ہے۔
بلوچستان کا نیا مطالبہ — “اگر خیبر پختونخوا نہیں چاہتا تو ہم لے لیں گے”
اسی دوران معاملہ بلوچستان تک جا پہنچا۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (X) پر وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی سے درخواست کی کہ:
“ہمارا صوبہ بھی دہشت گردی سے شدید متاثر ہے۔ اگر خیبر پختونخوا یہ گاڑیاں واپس کر رہا ہے تو ہم انہیں اپنے پولیس افسران کے لیے لینے کو تیار ہیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کی جا سکے۔”
محسن نقوی نے فوراً جواب دیا:
“وزیراعلیٰ صاحب! گاڑیاں جلد بلوچستان بھیجی جا رہی ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے سکیورٹی معاملات میں فوری دلچسپی دکھائی۔”
یہ جواب فوری وائرل ہو گیا اور سوشل میڈیا پر صارفین نے وفاق، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے درمیان اس دلچسپ “بلٹ پروف سیاست” پر مختلف تبصرے کیے۔
سیاسی تجزیہ — “بلٹ پروف تنازع دراصل اعتماد کا مسئلہ”
سیاسی مبصرین کے مطابق، بلٹ پروف گاڑیوں کا یہ تنازع دراصل وفاق اور خیبر پختونخوا کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی عدم اعتماد کی علامت ہے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر مہتاب شاہ کے مطابق:
“یہ تنازع ٹیکنیکل سے زیادہ سیاسی ہے۔ وزیراعلیٰ آفریدی نے گاڑیوں کے معیار کا مسئلہ اٹھا کر وفاق کے خلاف ایک مزاحمتی بیانیہ تشکیل دیا ہے۔”
ان کے مطابق وفاقی حکومت اس تنازع کو “غیر ضروری سیاسی شور” سمجھتی ہے، لیکن خیبر پختونخوا کی حکومت اسے مرکزیت پسندی کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
تکنیکی پہلو — کیا واقعی گاڑیاں غیر معیاری ہیں؟
بلٹ پروف گاڑیوں کے ماہرین کے مطابق، “B6 لیول” پروٹیکشن دنیا بھر میں پولیس اور حساس اداروں کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔ تاہم خیبر پختونخوا جیسے خطرناک علاقوں میں، جہاں خودکش حملے اور IED دھماکے عام ہیں، بعض ماہرین “B7 یا VR9 لیول” پروٹیکشن کی سفارش کرتے ہیں۔
یعنی وزیراعلیٰ کا اعتراض جزوی طور پر تکنیکی بنیاد رکھتا ہے، لیکن گاڑیوں کی مکمل جانچ رپورٹ تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی۔
اب کیا ہوگا؟
وفاقی وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق، یہ گاڑیاں تاحال اسلام آباد واپس نہیں پہنچی ہیں۔ ان کی اگلی منزل بلوچستان یا کسی دوسرے صوبے کو بنانا وفاق کے لیے سیاسی اور انتظامی فیصلہ ہوگا۔
دوسری جانب، کراچی اور اندرونِ سندھ میں بڑھتے جرائم کے باعث سکیورٹی ادارے بھی ان گاڑیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
نتیجہ — بلٹ پروف گاڑیاں یا بلٹ پروف سیاست؟
یہ تنازع بظاہر سکیورٹی سازوسامان کا ہے، مگر دراصل یہ اختیارات، اعتماد اور مرکز-صوبہ تعلقات کا ایک نیا امتحان ہے۔
جہاں خیبر پختونخوا اپنے “حقوق اور معیار” پر زور دے رہا ہے، وہیں وفاق اسے “سکیورٹی کو سیاسی رنگ دینے” کے مترادف قرار دے رہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ:
کیا گاڑیاں واقعی واپس اسلام آباد پہنچیں گی؟
کیا بلوچستان کو وہ فوری طور پر دی جائیں گی؟
یا یہ تنازع مستقبل میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے تعلقات کو مزید تلخ کر دے گا؟
فی الحال، پاکستانی سیاست میں “بلٹ پروف گاڑیاں” ایک نئی علامت بن چکی ہیں — اعتماد کی کمی، مرکزیت کے دباؤ، اور سکیورٹی و سیاست کے باہم ٹکراؤ کی علامت۔