کالمزحیدر جاوید سید

یہ جو ملتان سے محبت ہے (1)……حیدر جاوید سید

ایک دن راو صاحب کے چیمبر میں سی آئی ڈی کے دو اہلکار پہنچے اور اذنِ باریابی کے خواہستگار ہوئے

شہرِ مادر گرامی ملتان میں اسے ہمیشہ امڑی سینڑ دا شہر بولتا لکھتا ہوں اس شہر سے محبت کے ایک سے زائد حوالے ہیں یہ امڑی سینڑ اور میرے بہن بھائیوں کا جنم شہر ہے اس کی مٹی میں ہمارے خاندان کی کئی نسلیں آسودہ خاک ہیں والدین ( امڑی اور باباجان) کی تربتیں ہیں چند اور پیاروں کی بھی انگنت عزیزِ جاں دوست اسی شہر کے مختلف قبرستانوں میں مٹی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں یہ مرحوم دوست صرف ملتان پہنچ کر ہی یاد نہیں آتے بلکہ ان کی یادیں ہمہ وقت ساتھ رہتی ہیں ایک طویل فہرست ہے ان دوستوں کی جو سفر حیات طے کرکے ہمارے درمیان سے رخصت ہوئے
عزیز نیازی سید زمان جعفری سید حسن رضا بخاری المعروف رضو شاہ بلوچ لالہ عمر علی خان بلوچ ابنِ مولانا نور احمد خان فریدی ، سعدی خان حکیم محمود خان عارف محمود قریشی استاد مکرم سید حید عباس گردیزی یہ چند اسمائے گرامی ہیں ان دوستوں کے جنہوں نے اپنی زندگیوں میں میری رہنمائی کی اسی طرح زندہ و تابندہ دوستوں کی ایک طویل فہرست ہے جو بھائی جان وسیم ممتاز ایڈووکیٹ سے شروع ہوتی ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لیتی وسیم ممتاز میرے بڑے بھائی ہیں اور استاد بھی ملتانی منڈلی کے دوستانِ گرامی ہیں اور ملتانی سنگت کے سنگتی بھی مختلف الخیال ملتانی دوستوں کاوسیع حلقہ ہے ایک سے بڑھ کر ایک چندے آفتاب ہے
چند برس ادھر محمد عامر حسینی نے لکھا تھا ” شاہ جی جب ملتان سے رخصت ہوتے ہیں تو ساہیوال تک پلٹ کر دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی بس سے اترنے اور واپس آنے کا اشارہ کرے ” یہ تب کی بات ہے جب موٹر وے نہیں بنی تھی اب میں موٹر وے کے موڑ تک اس آس میں رہتا ہوں کہ کوئی فون کرکے کہے ” یار شاہ جی توں بس توں لہہ پو اساں گھن گھندے ہیں ” لیکن ضروری نہیں کہ ہر آس و امید پوری ہو
خیر ہم آگے بڑھتے ہیں اس بار ملتان میں قیام سات دن رہا ان سات دنوں میں دوستوں سے خوب کچہریاں ہوئیں ایک چکر خود ملتان ضلع کچہری کا لگا جہاں آدھے ملتان کے جگ بھتیجے بابر سوئیکارنو ایڈووکیٹ سے ملاقات رہی احمد خان لنگاہ ایڈووکیٹ اور دوتین دوسرے دوستوں سے بھی
بابر سوئیکارنو ہمارے مرحوم ترقی پسند دوست عارف محمود قریشی ایڈووکیٹ کا فرزند ارجمند ہے یہ کرہ ارض کا وہ واحد بیٹا ہے جس نے اپنے والد کی زندگی میں اس کے دوستوں پر قبضہ جمالیا جیسے دستور اچھال کر آرمی چیفوں نے ماضی میں مارشل لاء لگائے فرق یہ ہے کہ ہر مارشل لا کو بالآخر رخصت ہونا پڑا لیکن
بابر کا اپنے والد مرحوم کے دوستوں پر قبضہ قائم و دائم ہے

کبھی اسی ضلع کچہری کے ایک چیمبر میں عزیز نیازی ایڈووکیٹ جلوہ افروز ہوا کرتے تھے ایک سو تہتر نمبر والا یہ چیمبر ملتان کے مختلف الخیال سیاسی کارکنوں اہلِ دانش اور ملکی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے طالبعلموں کا ہائیڈ پارک ہوتا تھا عدالتی اوقات میں خوب رونق رہتی چائے کے دور چلتے سیاست اور علم و ادب کے ساتھ تاریخ اور سماجیات پر گفتگو بحثوں کی صورت اختیار کرلیتی لیکن کیا مجال کسی کے ماتھے پہ شکن آئے یا لہجے میں تلخی اترے بات سلیقے سے ہوتی تھی اور ہر شخص کو بات کرنے کی کامل آزادی حاصل ہوتی
یہ اُن ماہ و سال کی بات ہے جب ملتان ایک روشن خیال ترقی پسند اور عوام دوست شہر تھا ابھی اس شہر پر کسی چپلی فروش اور مسلی کے منحوس سائے پڑے تھے نہ تنگ نظری اور تعصبات کاشت ہوئے تھے اب تو دونوں فصلیں اتنی قد آور ہیں کہ سانس اکھڑنے لگتا ہے
عزیز نیازی کیا شاندار انسان باظرف دوست اور نجیب میزبان تھے ان کے چیمبر میں برپا مجلس میں کبھی راو عبدالطیف ایڈووکیٹ آجاتے تو رونق مزید دوچند ہوجاتی راو عبدالطیف اپنی وضع اور فہم کی آخری نشانی تھے
ایک دن راو صاحب کے چیمبر میں سی آئی ڈی کے دو اہلکار پہنچے اور اذنِ باریابی کے خواہستگار ہوئے انہوں نے منشی کو مہمانوں کیلئے چائے منگوانے کو کہا یہ جاسوس اہلکار چائے پی چکے تو راو صاحب نے وجہ آمد دریافت کی دو میں سے ایک نے ہچکچاتے ہوئے کہا ” راو صاحب لوگ آپ کو اللہ میاں کیوں کہتےہیں ” راو عبدالطیف بولے یار میں کسی کو مجبور نہیں کرتا جو کہہ دے کہہ دے ، سی آئی ڈی کے اہلکاروں کی حیرانی بھانپ کر راو صاحب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا بیٹا یہ تمہارے سمجھنے کی باتیں نہیں کسی بڑے افسر کو بھیجنا جس نے دفتری فائلوں کے علاوہ کچھ پڑھ رکھا ہو ، اہلکار کہنے لگے راو صاحب آپ ہمارے بزرگ ہیں ہمیں آج ہی رپورٹ پیش کرنی ہے کہ لوگ آپ کو اللہ میاں کیوں کہتے ہیں ؟
راو صاحب نے ایک قہقہہ اچھالا اور بولے ” ہوں گا تو لوگ کہتے ہیں ” ویسے بہتر ہے کہ کہنے والوں سے پوچھ کر رپورٹ بنا لو وہ بچارے ہونقوں کی طرح منہ پھاڑے دیکھتے رہ گئے
ان ماہ و سال میں ہمارے ایک طالبعلم دوست سعید خان ہوا کرتے یہ مرحوم نذر عباس بلوچ کے جگری دوست تھے انہیں بہت شوق تھا دوستوں کی محفلوں یہ کہنے کا ” اللہ کینی سائیں ” ایک دن میں نے کہا یار سعید توں ہک وار راو عبدالطیف ایڈووکیٹ کوں مل گھن ، سعید نے بے ساختہ کہا ” او اللہ میاں ” اس پر عزیز نیازی کا چیمبر قہقہوں سے گونج اٹھا آس پاس کے چیمبروں والے وکیلوں اور منشیوں کے ساتھ ان کے کلائنٹس نے حیرانی سے ہماری طرف دیکھا
ملتان کے وہ ماہ سال بڑے بارونق ہوتے تھے رونقیں اب بھی ہیں مگر وہ باتاں کہاں تب کینٹ والے بالی کے ہوٹل کے علاوہ عدالتی اوقات میں عزیز نیازی راو عبدالطیف بیگم فخر النسا میاں مشتاق احمد وزیر غازی اور چند دیگر وکلا کے چیمبروں میں سائلوں سے زیادہ سرخے سبزے ایشیا کو سرخ و سبز پینٹ کرنے میں تن من دھن سے لگے رہتے تھے
عدالتی اوقات کے بعد دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں طالبعلموں اور مزدور کسان رہنماوں کے تین ٹھکانے تھے کچہری روڈ کا ہوٹل فاران اب یہاں غالباً موبائل مارکیٹ ہے چوک گھنٹہ گھر پر واقع کیفے شاہد اور قلعہ کہنہ قاسم باغ پر کیفے عرفات شہر کے ادیب و شاعر تب نواں شہر چوک کے قریب بابا ہوٹل پر براجمان ہوتے تھے تھوڑے سے خوشحال ترقی پسندوں اور اسلام پسندوں کا معروف ٹھکانہ ڈیرہ اڈہ کے قریب ہوٹل شب روز کا کیفے ہوا کرتا تھا یہاں کواٹر سپرٹ چائے میں ایک خالی کپ اضافی مل جاتا تھا
کچہری روڈ والے فاران ہوٹل کو منکرین کا اڈہ کہا جاتا تھا یہ منکرین والی اصطلاح ہوٹل کے قریب واقع مدرسہ قاسم العلوم کے طلبا اور اساتذہ نے گھڑی تھی
اس ہوٹل میں بہت سارے واقعات رونما ہوئے کچھ نے بہت شہرت حاصل کی کچھ ہوٹل کے لان اور دیکھنے سننے والوں کے سینوں میں دفن ہوگئے
کیفے شاہد کے ہال کی دومیزوں کا قبضہ معروف معلم مہر گل محمد اور ان کے ساتھی اساتذہ کے پاس رہتا ایک دو پر نوجوان نسل قابض ہوتی کیفے عرفات کی رونق شام اترتے ہی بڑھنے لگتی
ان ماہ و سال میں میں جب کراچی سے ملتان آتا تو مستقل قیام کا ٹھکانہ بلوچ لالہ عمر علی خان بلوچ مرحوم کے ماہنامہ سرائیکی ادب کے رائٹرز کالونی والے دفتر کے اوپر چوبارہ ہوتا تھا

صبح تیار ہوکر سیدھا کچہری میں عزیز نیازی کے چیمبر پہنچ جاتا دوپہر میں مادر گرامی کی قدم بوسی کیلئے گھر جاتا پھر فاران ہوٹل اور کیفے شاہد کی محفلیں بھگتا کر چوک کمہاراں والا کے قریب ایک گلی میں واقع رضو شاہ ( سید حسن رضا بخاری ) کے گھر جہاں شام کے اوقات میں دوست اکٹھے ہوتے اور انقلاب کا راستہ ہموار کرتے
یہاں سے کچھ تازہ دم انقلابی سیدھے قلعہ کہنہ قاسم باغ والے کیفے عرفات پہنچتے جہاں پہلے سے میزیں آباد ہوتیں اور بحثیں جاری مختلف میزوں پر سرخے اسلام پسند اور آل رائٹ گروپس ڈیرے ڈالے ہوتے تھے خدا کے ہونے نہ ہونے پر بحثیں نظام حکومت کیسا ہو سوشلزم آوے ای آوے اسلامی نظام سارے مسائل کا حل ہے مزدور کسان راج کی باتیں
مگر کیا مجال کوئی تلخی پیدا ہو یا فتویٰ اچھلے سب ایک دوسرے کو وسعت قلبی سے برداشت کرتے تھے سماجی مروت کے رشتوں میں بندھے یہ شہردار اب تلاش کرنے سے نہیں ملتے اچھا ہوا ننانوے فیصد دنیا سے چلے گئے ورنہ چپلی فروش اور مسلیوں کے فتووں کی زد میں آجاتے ، یہ جو ملتان سے محبت ہے اس کی کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی اور بہت باتیں ہیں اگلے کالم میں کریں گے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button