کالمزحیدر جاوید سید

یہ جو ملتان سے محبت ہے (3)…….حیدر جاوید سید

مامے مودی کے دال مونگ خونی برچ چوک سے ملحقہ نصف درجن محلوں میں مشہور تھے پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں جب آبادی کا پھیلاو کم تھا

ملتان اور ملتانیوں کے ذکر سے اصل میں میں خود کو تلاش کرتا ہوں سادہ لفظوں میں کہہ لیجے ” خود سے بچھڑا شخص اپنی کھوج میں ہے ” کیوں ؟ اس کی بھی بہت سادہ سی وجہ ہے وہ یہ کہ جنم شہر سے ساڑھے آٹھ نو برس کی عمر میں بچھڑا تھا آج ستاسٹھ برس سے چھپن دن کی دوری پر ہوں حسابات کے دفتر کھلے ہیں نفع نقصان سب لکھا ہے
اس نفع نقصان کا ازسرنو جائزہ لینا اصل میں خود سے ملاقات کی ایک کوشش ہے اس میں کامیابی کہاں تک حاصل ہوتی ہے ابھی کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ” کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے ” اپنی کہانی کیا ہے حقیقت اور شناخت یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے سوال ہیں ان سوالوں کو بھی ایک سوال کا سامنا ہے اور وہ ہے کہ ” انت ” کیا ہوگا ویسے یہ انت ابھی کتنی مسافت پر ہے اس بارے سوچتا رہتا ہوں
پچھلے چند برسوں سے زندگی نوے پچانوے فیصد گھر کی چار دیواری تک محدود ہوکر رہ گئی ہے گھر یہ بھی خوب ہے کرایہ کا ہو ہوتا تو گھر ہی ہے ، صبح اٹھ کر لائبریری میں آ بیٹھتا ہوں چائے ناشتہ اخبارات کسی کتاب یا ایک دو کتابوں کے کچھ کچھ صفحات پڑھنا سوشل میڈیا پر ہلکی پھلکی گپ شپ اور اداریہ نویسی و کالم نگاری کی مزدوری
روٹی کھانی ہے زندہ رہنا ہے تو مزدوری آخری سانس تک واجب اولیٰ است ہم کونسا کسی کو موسیٰؑ کی امت کی طرح لاڈلے ہیں کہ من و سلویٰ بھیجے گا خیر جانے دیجئے ان بوجھل باتوں کو ہم اور باتیں کرتے ہیں
ملتان سے بھچڑے تقریباً ساڑھے اٹھاون برس ہولیئے درمیان میں دوبار کچھ برس جنم شہر میں بیتائے لیکن پھر بچھڑنا پڑا پتہ نہیں مجھ ملتانی کو ملتان راس کیوں نہیں ؟ سچ پوچھیں تو میرا دل کرتا ہے ہر نئی صبح آنکھ ملتان میں کھلے شب و روز اسی شہر میں بسر ہوں پر اس رزق سے بندھی مشقت اور ہجرتوں کیا کیجے ویسے ساری خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں لیکن دل تو دل ہے نہ وہ چاہتا ہے صبح ڈولی روٹی و دال مونگ کا ناشتہ ہو دوپہر میں تباخی کے سالن سے روٹی اور شام میں مٹھے یا آلو چنے سے عشایہ اڑایا جائے
کیا وقت تھے جب فٹ پاتھ پر صبح دال مونگ بیچنے والوں کے قریب ایک دو چٹائیاں پچھی ہوتی تھیں خونی برج میں مامے مودی دال مونگ والے نے تو چٹائیوں کے ساتھ لکڑی کی پیڑھیاں بھی رکھی ہوتی تھیں جو لوگ چٹائی پر پالتھی مار کر نہیں بیٹھ سکتے تھے وہ پیڑھی پر بیٹھ جاتے
مامے مودی کے دال مونگ خونی برچ چوک سے ملحقہ نصف درجن محلوں میں مشہور تھے پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں جب آبادی کا پھیلاو کم تھا بلاشبہ ان کے پاس صبح کے وقت دوتین قطاریں لگی ہوتی تھیں خواتین اور مرد گھر سے برتن ( ملتانی میں کہتے ہیں اپنڑیں تھاں گھروں گھن کے آندے ہن ) گھر سے لاتے تھے جبکہ بچے جنہوں نے ایک آنے کے دال مونگ لینے ہوتے انہیں پیپل کے پتے کو کٹورے کی شکل دے کر دال مونگ ملتے مشین کی طرح ہاتھ چلتے تھے مامے مودی کے
ان کی ایک مشہور ڈش توا مچھلی کا پیس تھا یہ سردیوں کی سوغات تھی دوآنے کا ایک چھوٹا سا مچھلی کا توے پر بنا پیس آنے کے دال مونگ کچھ عرصے بعد توا مچھلی کا پیس چار آنے کا ہوگیا
خونی برج چوک کی اپنی تاریخی اہمیت ہے آجکل تو یہاں مچھلی فروشوں کی قطار اندر قطار دکانیں ہیں چوک سے شروع ہوئی فوڈ سٹریٹ کا بڑا حصہ ٹی بی ہسپتال روڈ پر ہے اس کا دوسرا حصہ کیڑی جمنداں جانے والی سڑک پر ہم پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں واپس چلتے ہیں
چاچا یارو دودھ دہی والے صبح ان کے ہاں دودھ دہی اور لسی ہوتی دوپہر کے بعد فالودہ سردیوں میں گھر پر تیار کردہ سوہن حلوہ بھی ملتا اور چائے بھی جو مٹی کے پختہ رنگین پیالوں میں دی جاتی حاجی یار محمد ان کا نام تھا لیکن بچے جوان بوڑھے سب چاچا یارو کہتے تھے
ان کی دکان کی سے بہت یادیں وابستہ ہیں گھر والے مجھے دوسرے بھائیوں کی طرح صبح نماز ادا کرنے کیلئے مسجد بھیجتے تو میں چاچے یارو کی دکان پر پہنچ جاتا جہاں مجھے انہیں اخبار کی سرخیاں پڑھ کر سنانا ہوتیں جو سرخی چاچا یارو کو اچھی لگتی اس کی خبر پڑھ کر سناتا گرمیوں میں ایک چھوٹا پیالہ دہی اور سردیوں میں دوٹکیاں سوہن حلوہ آدھا پیالہ چائے اخبار پڑھ کر سنانے کے عوض ملتا گھر والے سمجھتے میں نماز پڑھنے گیا ہوں مگر ہم چاچا یارو کو اخبار سنارہے ہوتے تھے پھر ایک دن ہمارا بھانڈہ پھوٹ گیا جس پر والد صاحب نے بے تحاشا تشدد کیا یہی تشدد گھر سے بھاگنے کا سبب بنا
خونی برج چوک پر چاچا باری حلوائی ہوتے تھے ان کی حلوہ پوڑی اور مٹھائی بہت مشہور تھی نمکین میٹھی اور سادہ پوڑیوں کے ساتھ دال والی پوڑی اور قتلمہ حلوہ اور چنے یہ صبح کا ناشتہ ہوتا ان کے ہاں
سڑک کے دوسری جانب چاچا رمضان چھولیاں والے بیٹھتے تھے فٹ پاتھ پر یہ آلو بھیں چنے اور سادہ چاول فروخت کرتے ان کے ساتھ چاٹی کی لسی اور مکھن فروخت کرنے والے ایک بزرگ بھی بیٹھتے تھے افسوس کے ان کا نام ذہن سے محو ہوگیا
صبح کے روایتی ملتانی ناشتوں کے حوالے سے اُن برسوں میں خونی برج کے علاوہ پاک دروازہ حرم دروازہ بوہڑ دروازہ اور چوک گھنٹہ گھر مشہور تھے گھنٹہ چوک میں جہاں کبھی ایک قطار میں مدینہ ہوٹل نیشنل بینک اور کیفے شاہد تھے نیشنل بینک کے باہر صبح پانچ بجے ملتانی ناشتے کی دکان سجتی اور ساڑھے آٹھ بجے تک بند ہوجاتی ملازمین صفائی کردیتے تھے
یادیں بنا دستک دیئے اترتی آرہی ہیں ہمارے آبائی علاقے جو تحصیل کبیروالہ میں ہے اب اس تحصیل کا ضلع خانیوال ہے ماما پٹواری جب ملتان پیشی کیلئے آتے تو کچہری جانے سے قبل وہ ہمارے گھر نازل ہوتے ان کا ناشتہ دہی پراٹھے آملیٹ لسی اور چائے ہوتا
ناشتہ کرکے رخصت ہوتے ہوئے وہ یہ ضرور کہتے ” بی بی سیدزادی نوں اکھیائے پٹواری بھرا ڈوپہراں دا ٹُکر آن تے کھاسی ” ایک دن جب وہ دوپہر کے کھانے کیلئے پیغام سناچکے تو میں نے ان سے کہا ماما پٹواری ڈوپہریں اساں گھر نی ہوونڑاں ؟ انہوں نے پوچھا ، کدے جاو او ؟ میں نے رسان سے جواب دیا وڈی خالہ دے گھر ڈبکراں دی وستی (یہ ڈبکراں دی وستی اب ہمایوں محلہ کہلاتا ہے )
ماما پٹواری اُس دن کچہری سے فراغت پاکر وڈی بی بی ( ہماری بڑی خالہ جان ) کے گھر جا پہنچے جو دال ساگ تیار تھا تناول فرمایا بہت بد مزہ ہوئے لیکن جاتے جاتے میری شکایت کر گئے کہ میں نے بتایا تھا کہ آج ہم بڑی خالہ کے ہاں جائیں گے یہ شکایت امی جان تک پہنچی تو بہت ڈانٹ پڑی کالم کے دامن میں گنجائش تمام ہوئی ملتان اور ماضی کی مزید باتیں پھر سہی البتہ چلتے چلتے ہمارے ملتانی مہربان اعلیٰ خطاط اور شاعر محمد مختار علی کا یہ شعر حاضر ہے
یہ جو ملتان سے محبت ہے
اپنی پہچان سے محبت ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button