پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ: ناصر خان خٹک کے خلاف سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مہم میں ملوث خاتون ملزمہ کی رٹ پٹیشن خارج، ایف آئی آر بحال

شکایت موصول ہونے کے بعد نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے واٹس ایپ گروپ اور فیس بک پر شیئر کردہ مواد کے ثبوت حاصل کر کے تحقیقات کا آغاز کیا۔

اسلام آباد (خصوصی نمائندہ): اسلام آباد ہائیکورٹ نے ناصر خان خٹک کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی جھوٹ پر مبنی کردار کشی کی مہم کے معاملے میں ملوث خاتون ملزمہ کی جانب سے دائر رٹ پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کی درج کردہ ایف آئی آر بحال کر دی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ادارے کو ملزمہ کے خلاف قانونی کارروائی جاری رکھنے کا اختیار دے دیا ہے۔
جھوٹے الزامات اور کردار کشی کی مہم
ذرائع کے مطابق، خاتون ملزمہ نے سب سے پہلے ایک واٹس ایپ گروپ میں ناصر خان خٹک کے خلاف جھوٹے، من گھڑت اور غیر اخلاقی الزامات پر مبنی مہم شروع کی۔ اس کے بعد انہی الزامات کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کر کے کردار کشی کی مہم کو مزید وسعت دی گئی۔
سابقہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (FIA) اور موجودہ نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے ان الزامات اور جھوٹے بیانیے کے خلاف باقاعدہ شکایت درج کروائی۔
تحقیقات اور ملزمہ کی عدم تعاون
شکایت موصول ہونے کے بعد نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی نے واٹس ایپ گروپ اور فیس بک پر شیئر کردہ مواد کے ثبوت حاصل کر کے تحقیقات کا آغاز کیا۔
تحقیقات کے دوران خاتون ملزمہ کو ایس او پیز کے تحت تین نوٹسز جاری کئے نوٹسز طلبی کے باجود بھی ملزمہ پیش نہ ہوئیں اور تحقیقات سے راہِ فرار اختیار کرتی رہیں۔
نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کی طلبی کے نوٹس جاری ہونے کے باوجود ملزمہ اور اس کے چند ساتھی سوشل میڈیا پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے رہے، اور ناصر خان خٹک کے خلاف بلیک میلنگ، ہراسمنٹ اور سنگین نوعیت کی دھمکیوں جیسے اقدامات بھی کیے۔
ادارے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ناکام
ذرائع کے مطابق، جب خاتون ملزمہ کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور وہ عوامی سطح پر سامنے آئی تو ملزمہ اور اس کے ساتھیوں نے صحافتی حلقوں کے ذریعے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کے افسران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔
تاہم ادارے کے تمام افسران حقائق اور شواہد پر قائم رہے اور کسی قسم کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا۔
عدالتی کارروائی اور دلائل
خاتون ملزمہ نے پہلے ایڈیشنل سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی اور ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی، جس میں NCCIA کی درج کردہ ایف آئی آر کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ابتدائی سماعت میں ایف آئی آر کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے NCCIA اور ناصر خان خٹک کو نوٹس جاری کیے۔
22 اکتوبر کو جسٹس جناب اعظم خان نے مقدمے کی سماعت کی۔ دورانِ سماعت ملزمہ کے وکیل نے ایف آئی آر کو من گھڑت قرار دینے کی کوشش کی اور سابقہ الزامات دہراتے رہے۔
تاہم جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ:“اگر صرف الزامات کی بنیاد پر ایف آئی آرز معطل کی جانے لگیں تو پھر ہر کیس میں یہی نظیر قائم ہو جائے گی۔ عدالت صرف شواہد دیکھ کر فیصلہ کرے گی۔”
نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کی طرف سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل شیخ عامر سہیل اور تفتیشی افسر حمیرا اسلم عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ ناصر خان خٹک کی جانب سے وکیل طارق محمد خان مروت نے دلائل دیے۔
فیصلہ: ایف آئی آر بحال، پٹیشن خارج
تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 25 اکتوبر 2025 کو محفوظ فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں عدالت نے خاتون ملزمہ کی رٹ پٹیشن مسترد کرتے ہوئے ایف آئی آر بحال کر دی اور نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کو ملزمہ کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کا مکمل اختیار دے دیا۔
ناصر خان خٹک کا ردِعمل
فیصلے کے بعد ناصر خان خٹک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:“اللہ کا شکر ہے کہ آج حق اور سچ کی جیت ہوئی۔ خاتون ملزمہ نے جھوٹ پر مبنی مہم کے ذریعے میری کردار کشی کی کوشش کی، مگر عدالت نے حقائق کی بنیاد پر میرا مؤقف درست قرار دیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:“یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ قانون حقائق دیکھتا ہے، نہ کہ جنس۔ اگر کوئی عورت قانون شکنی کرے گی تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔”
ناصر خان خٹک نے بتایا کہ ملزمہ نے پہلے نیشنل پریس کلب میں ایک خود ساختہ درخواست جمع کروائی، پھر اسی کو پریس کلب سے منسلک ایک واٹس ایپ گروپ میں شیئر کیا، اور بعد ازاں اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر جھوٹے الزامات کے ساتھ پوسٹ کر کے منظم کردار کشی مہم چلائی۔
انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج جناب قدرت اللہ صاحب کی عدالت پہلے ہی دو 22a رٹ پٹیشن پر میرے حق میں فیصلہ دے چکی ہے، اور اب اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی ان کے مؤقف کی تصدیق کرتا ہے۔
ماہرین قانون کا تجزیہ
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال، کردار کشی، اور سائبر ہراسمنٹ کے خلاف ایک اہم نظیر (precedent) ہے۔
یہ فیصلہ مستقبل میں ایسے تمام مقدمات کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا، جن میں افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ مقدمہ نہ صرف سائبر قوانین کے نفاذ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ یہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ سوشل میڈیا آزادی اظہار کا پلیٹ فارم ضرور ہے، مگر اس کا غلط استعمال کسی کی عزت و ساکھ پر حملہ کرنے کے مترادف ہے، جس کے سنگین قانونی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button