کالمزحیدر جاوید سید

یہ جو ملتان سے محبت ہے ( قسط 5 )…….حیدر جاوید سید

تو پھر عوامی جمہوری پارٹی کی بجائے سرائیکی قومی جمہوری پارٹی کیوں نہیں " لنگاہ صاحب نے جواب دیا ہماری پارٹی ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کی جماعت ہی ہوگی

لالہ سید زمان جعفری کی اقامت گاہ پر خورشید حسن میر اور بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کی عوامی جمہوری پارٹی کا پہلا ورکرز کنونشن منعقد ہوا تھا پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر تھا خورشید حسن میر سیکرٹری جنرل اور بیرسٹر تاج محمد لنگاہ ڈپٹی سیکرٹری جنرل تھے دونوں شخصیات پہلے پیپلز پارٹی میں تھیں انہوں نے ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی نئی جماعت بنانے کا تجربہ کیا افسوس کہ یہ تجربہ ناکام ہوگیا
اسی عرصے میں پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنماہ سینیٹر محمد حنیف رامے نے پاکستان مساوات پارٹی کے نام سے اپنی جماعت بنائی میاں ساجد پرویز نے اس کا پہلا ورکرز کنونشن ملتان میں منعقد کروایا تھا کچھ عرصہ بعد رامے صاحب امریکہ چلے گئے کیونکہ ان کی پارٹی کو ” رب روٹی لوک راج ” کے سلوگن کے باوجود عوامی پذیرائی حاصل نہ ہوسکی خورشید حسن میر اور بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کی عوامی جمہوری پارٹی عوام تو عوام ترقی پسند سیاسی کارکنوں تک کو اپنی جانب متوجہ نہ کرپائی لالہ سید زمان جعفری کے گھر پر منعقد ہوا ورکرزکنونشن لوگوں کی شرکت کے اعتبار سے کامیاب رہا اس میں بھی زمان جعفری اور رضوشاہ ( سید حسن رضا بخاری ) سمیت چند مقامی دوستوں کا بنیادی کردار تھا گھنٹہ گھر کے قریب ایک خیبر ہوٹل ہوا کرتا تھا کچھ مہمان وہاں ٹھہرائے گئے چند کو ہوٹل شب روز میں کچھ احباب منصور کریم سیال کے گھر مقیم ہوئے کنونشن ایک روزہ تھا لیکن ملتان میں دوتین دن تک رونق لگی رہی کنونشن سے پچھلی شب زمان جعفری کے گھر پر روزانہ آنے والے توفیق پسندوں کے علاوہ اچھے خاصے سیاسی کارکن جمع تھے خورشید حسن میر اور بیرسٹر تاج لنگاہ سے سوال و جواب کی نشست خوب رہی ملتان اور گردونواح سے آنے والے دوست اور سیاسی کارکن ایک ہی سوال تکرار کے ساتھ پوچھتے دیکھائی دیئے ” پیپلز پارٹی کی موجودگی میں آپ لوگ نئی جماعت کیوں بنارہے ہیں ؟” خورشید حسن میر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے ترقی پسندانہ نظریات سے ہٹ گئی پارٹی پر وہی طبقات قابض ہوگئے جن کے خلاف پارٹی بنائی گئی تھی اس جواب سے لوگ مطمئن نہ ہوئے ان سے پوچھا گیا کہ ایسا ہے تو پھر آپ ( میر صاحب) آخری وقت تک وزیر بے محکمہ کیوں بنے رہے ؟ بدمزگی پیدا ہوتی دیکھ کر بیرسٹر تاج محمد لنگاہ نے معاملات سنبھالنے کی کوشش کی مگر بات بن نہ پائی اس پر زمان جعفری دونوں کی مدد کو آئے اور بولے ” یار تساں ایں گال دا خیال کرو کہ اے دوست ساڈے مہمان ہن ” مجھے یاد پڑتا ہے اس پر عمر علی خان بلوچ نے بیرسٹر تاج محمد لنگاہ سے پوچھا ” نئی جماعت اگر ضروری ہے تو پھر عوامی جمہوری پارٹی کی بجائے سرائیکی قومی جمہوری پارٹی کیوں نہیں ” لنگاہ صاحب نے جواب دیا ہماری پارٹی ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کی جماعت ہی ہوگی سوال کرنے والے عمر علی خان بلوچ سرائیکی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی اور ماہنامہ سرائیکی ادب کے ایڈیٹر تھے ان کے والد بزرگوار مولانا نور احمد خان فریدی رح مفسر کلام خواجہ غلام فرید تھے انہوں نے دیوان فرید کا اردو ترجمہ اور شرع دوجلدوں میں مرتب کی پیپلز پارٹی کے دوستوں کے سوالات میں تلخی چھپی ہوئی تھی خصوصاً عبدالقادر قادری اور طالبعلم رہنما محمد اسلم وڑائچ ( اللہ تعالیٰ دونوں مرحومین کی مغفرت فرمائے آمین ) تو بہت برہم تھے اسلم نوجوان اور طالبعلم تھے جذبات کی تندی سمجھ میں آتی تھی لیکن عبدالقادر قادری جہاندیدہ سیاسی کارکن تھے یہ دونوں خورشید حسن میر اور بیرسٹر تاج لنگاہ سے دریافت کررہے تھے کہ ایک ایسے وقت میں پارٹی زیر عتاب ہے پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے نئی پارٹی بنانے کا فائدہ کس کو پہنچے گا ؟
قادری صاحب مرحوم کا ایک سوال بہت دلچسپ تھا انہوں نے خورشید حسن میر سے پوچھا ” میر صاحب تسیں کدوں کمیونسٹ ہوئے جے ؟
کیا مطلب انہوں سے کہا ، قادری بولے پارٹی کا ڈھانچہ کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر ہے ، میر اس کا جواب نہیں دے پائے البتہ سوشلزم کی برکات پر بولنے لگے تب ڈرائنگ روم کے ایک کونے سے آواز آئی ” پیپلز پارٹی کے منشور میں بھی سوشلزم کا ذکر ہے ” خورشید میر بولے وہ اسلامی سوشلزم ہے
اس پر کسی دل جلے نے کہہ دیا ” اسلامی سوشلزم کی وجہ سے ہی آپ وزیر بے محکمہ رہے سوشلزم ہوتا تو یہ وزارت بھی نہ ملتی ” سوالات تلخ ہوتا دیکھ کر سید زمان جعفری بولے ” یار میڈے مہمان ہن کجھ خیال کرو ” سو خیال کرلیا گیا سوال و جواب کی نشست تمام ہوگئی
محمد حنیف رامے پیپلز پارٹی کے دور میں پنجاب کے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیراعلیٰ بھی رہے دھیمے مزاج کے دانشور ادیب اور مصور حنیف رامے پیپلز پارٹی چھوڑ کی پیرپگاڑا کی قیادت میں بننے والی متحدہ مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر بھی بنے غلام مصطفیٰ کھر بھی اسی مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر بنے تھے پیپلز پارٹی چھوڑ کر
دلچسپ بات یہ ہے کہ حنیف رامے صاحب نے پیپلز پارٹی کھر سے ہوئے اختلافات پر چھوڑی ( یہی ان کا موقف رہا ) لیکن بعد میں دونوں حریف پیر پگاڑا کی چھتری کے نیچے آگئے
حنیف رامے صاحب نے مارشل لا لگنے کے بعد نئی جماعت بنانے کیلئے دوستوں سے صلاح مشورے شروع کردیئے سب سے بڑا مسلہ جو پارٹی بنانے کی راہ میں حائل تھا وہ مالی مسلہ تھا حنیف رامے کا تعلق اشرافیہ سے نہیں بلکہ سفید پوش طبقے سے تھا وہ اپنی ذات میں انجمن تھے
ذوالفقار علی بھٹو جب کنونشن لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے تو رامے صاحب کنونشن لیگ کے آفس سیکرٹری تھے بھٹو ان کے دھیمے مزاج مطالعے اور دانش کے مداح ہوئے سو جب بھٹو نے کنونشن لیگ اور وزارت خارجہ سے استعفیٰ دیا حنیف رامے نے ان کے ساتھ ہی کنونشن لیگ چھوڑدی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایوب خان کی کابینہ اور پارٹی سے مستعفی ہوتے وقت ابتدا میں تین افراد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے محمد حنیف رامے غلام مصطفیٰ کھر اور رئیس غلام مصطفیٰ جتوئی خیر یہ الگ قصہ ہے ہم ملتان کی باتیں کررہے ہیں حنیف رامے نے پاکستان مساوات پارٹی بنائی تو سابق ایم این اے میاں ساجد پرویز بھی اس شامل ہوگئے میاں ساجد پرویز نے ہی مساوات پارٹی کے پہلے ورکرز کنونشن کا ملتان میں اہتمام کیا تھا پارٹی کا اجلاس خاص بیرون حرم گیٹ ساجد پرویز کے ڈیرے پر منعقد ہوا جبکہ اجلاس عام کیلئے انہوں نے حسین آگاہی چوک کے قریب ایک گرلز سکول کا لان حاصل کیا غالباً ان دنوں تعلیمی اداروں میں تعطیلات تھیں نہ بھی ہوتیں تو بھی ساجد پرویز کوئی جگہ آسانی سے حاصل کرلیتے بیرون حرم گیٹ ساجد پرویز کے ڈیرے پر منعقد ہونے والے اجلاس میں شرکت کیلئے کچھ افراد کو رامے صاحب کی جانب سے ذاکر حسین نے دعوت دی یہ لوگ ملک بھر سے ملتان پہنچے غالباً بیس بائیس کے قریب لوگ آئے جبکہ ملتان اور بہاولپور ڈویژن میں سے آٹھ دس لوگ بلائے گئے یہ ایک قسم کا مشاورتی اجلاس تھا حنیف رامے نے لگ بھگ پونے دوگھنٹے پارٹی کے قیام کی ضرورت منشور اور ” رب روٹی لوک راج ” کے پارٹی سلوگن پر خطاب کیا ابتدائی گفتگو میاں ساجد پرویز نے کی حنیف رامے کے خطاب کے دوران ہی شرکا میں ایک دو پمفلٹ اور پارٹی منشور کا کتابچہ تقسیم کردیا گیا یاد رہے کہ ملک بھر سے جو بیس بائیس لوگ حنیف رامے کی دعوت پر ملتان آئے تھے ان میں چند کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا لیکن زیادہ تر دیگر جماعتوں کے مختلف الخیال سیاسی کارکن اور طالبعلم تھے اور یہ سب حنیف رامے سے ذاتی تعلق میں بندھے ہوئے تھے کلیدی خطاب کے بعد سوال و جواب کی نشست دلچسپ اور بھر پور رہی بیرون ملتان سے آئے لوگوں کی اکثریت چاہتی تھی کہ نئی جماعت بنانے کی بجائے پہلے سے موجود ترقی پسند جماعتوں میں سے کسی میں شامل ہونا چاہئے تھا
حنیف رامے کا کہنا تھا ” نیا خون نیا نعرہ نئی جماعت” پاکستان مساوات پارٹی جس دھوم دھام سے بنی اتنی ہی خاموشی سے ماضی کا قصہ ہوگئی حنیف رامے کچھ عرصہ بعد ملک چھوڑ کر امریکہ جابسے واپس آئے تو مختصر خاموشی کے بعد واپس پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے بعد ازاں پیپلز پارٹی نے انہیں ایک مرحلے پر پنجاب اسمبلی کا سپیکر منتخب کروایا جب وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر تھے تو ایک دن ان سے ملاقات میں میں نے ان سے دریافت کیا ” آپ نے مساوات پارٹی کیا سوچ کر بنائی پھر امریکہ کیوں چلے گئے ؟ ” کہنے لگے غلط وقت پر درست فیصلہ بھی غلط ہوجاتا ہے نئی جماعت کیلئے ضروری لوازمات سے ہم محروم تھے سارا بوجھ ساجد پرویز پر نہیں ڈالا جاسکتا تھا پھر یہ منفی تاثر بھی آڑے آیا کہ میں پیپلز پارٹی کو توڑنے کے کسی مشن پر ہوں اس لئے سیاسی عمل سے رخصتی مناسب سمجھی

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button