پاکستاناہم خبریں

اسلام آباد: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر نئی سیاسی و آئینی بحث، فیلڈ مارشل کے عہدے سے لے کر این ایف سی ایوارڈ اور تعلیم کے وفاقی کنٹرول تک اہم سوالات جنم لینے لگے

تاہم اس ترمیم کے منظرعام پر آتے ہی سوالات کی ایک نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے — کیا اب فیلڈ مارشل پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بن جائیں گے؟

رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز

پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب ایک نئی آئینی بحث نے سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔ یہ بحث مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے گرد گھوم رہی ہے، جس میں نہ صرف آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کو باضابطہ طور پر آئینی تحفظ دینے کی تجویز شامل ہے بلکہ این ایف سی ایوارڈ، تعلیم اور آبادی منصوبہ بندی جیسے حساس معاملات کو بھی وفاق کے ماتحت لانے کی بات کی جا رہی ہے۔

تاہم اس ترمیم کے منظرعام پر آتے ہی سوالات کی ایک نئی لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے — کیا اب فیلڈ مارشل پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بن جائیں گے؟ اور کیا اس ترمیم کے بعد صدرِ پاکستان کے آئینی اختیارات متاثر ہوں گے؟


آئین کا آرٹیکل 243 کیا کہتا ہے؟

آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 243 مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول سے متعلق ہے، جس کے مطابق:

  • وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہوگا۔

  • صدرِ پاکستان مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہوں گے۔

  • صدر پاکستان کو وزیراعظم کی ایڈوائس پر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں افواج کے سربراہان کی تعیناتی کا اختیار حاصل ہے۔

تاہم موجودہ بحث کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ آئین میں فیلڈ مارشل کے عہدے کا ذکر نہیں۔ یہ عہدہ روایتی طور پر پانچ ستاروں والا ہوتا ہے اور فوج کے سب سے اعلیٰ افسر کو دیا جاتا ہے۔


پس منظر: “آپریشن بنیان المرصوص” کے بعد فیلڈ مارشل کا عہدہ

ذرائع کے مطابق آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی کے بعد حکومت نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی — جس کے نتیجے میں وہ بری، بحری اور فضائیہ کے فور اسٹار افسران سے سینیئر ترین فوجی افسر بن گئے۔

لیکن چونکہ آئین میں فیلڈ مارشل کا ذکر نہیں، اس عہدے کو قانونی تحفظ نہیں تھا۔ اسی لیے 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسے آئینی حیثیت دینے کی تجویز سامنے آئی ہے۔


کیا فیلڈ مارشل سپریم کمانڈر بن جائیں گے؟

آئینی ماہرین کے مطابق اگرچہ ترمیم کے بعد فیلڈ مارشل کا عہدہ آئینی درجہ حاصل کر سکتا ہے، مگر اس سے صدرِ پاکستان کی سپریم کمان ختم نہیں ہوگی۔

سابق جج سپریم کورٹ میاں رؤف عطا نے کہا:

“فیلڈ مارشل کا عہدہ وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر نے دیا ہے، لیکن چونکہ آئین میں اس کا ذکر نہیں، اس لیے ترمیم کی ضرورت پڑی۔ البتہ صدر ہی سپریم کمانڈر رہیں گے۔”

تاہم کچھ دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر آرٹیکل 243 کی شق تین میں تبدیلی کی گئی تو ممکن ہے کہ فیلڈ مارشل کو “مسلح افواج کے سینئر ترین کمانڈر” کے طور پر آئینی حیثیت دی جائے، جس سے کمانڈ کا توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔

ایک سینیئر دفاعی تجزیہ کار کے مطابق:

“اگر فیلڈ مارشل کے ماتحت تینوں سروس چیفس آ جائیں تو اس صورت میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ غیر مؤثر ہو جائے گا، اور اسے ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔”


بلاول بھٹو کا انکشاف اور حکومتی مؤقف

اس مجوزہ ترمیم کا معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر انکشاف کیا کہ:

“وزیراعظم نے پیپلز پارٹی سے 27ویں آئینی ترمیم میں حمایت کی درخواست کی ہے، جس میں این ایف سی ایوارڈ کے صوبائی تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، اور تعلیم و آبادی منصوبہ بندی کے وفاقی کنٹرول کی تجاویز شامل ہیں۔”

منگل کو سینیٹ اجلاس میں اس بیان پر گفتگو کرتے ہوئے نائب وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے اعتراف کیا کہ:

“بلاول بھٹو نے جو بات کی وہ بے بنیاد نہیں، ان نکات پر بات چیت ضرور ہوئی ہے۔ البتہ بہتر یہ ہو گا کہ ہم اس ترمیم کو پہلے سینیٹ میں پیش کریں تاکہ تفصیلی بحث ممکن ہو۔”

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کوشش کرے گی کہ یہ ترمیم جلد از جلد پارلیمان میں پیش کی جائے۔


تعلیم اور آبادی منصوبہ بندی دوبارہ وفاق کے پاس؟

بلاول بھٹو کے بیان کے مطابق 27ویں ترمیم کے ذریعے تعلیم اور آبادی منصوبہ بندی کے اختیارات ایک بار پھر وفاق کے پاس لانے کی تجویز دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت یہ دونوں شعبے صوبوں کو منتقل کر دیے گئے تھے، تاکہ صوبائی حکومتیں اپنی ضروریات کے مطابق پالیسی بنا سکیں۔

ذرائع کے مطابق وفاق کا مؤقف ہے کہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم اور ایک قومی نصاب نافذ کرنے کے لیے یہ شق واپس لینا ناگزیر ہے۔


این ایف سی ایوارڈ کا تنازعہ

ترمیم میں ایک اور اہم نکتہ این ایف سی ایوارڈ (National Finance Commission Award) سے متعلق ہے — جو وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا آئینی فارمولا فراہم کرتا ہے۔

موجودہ نظام کے تحت صوبوں کا مجموعی حصہ 57.5 فیصد ہے، جبکہ وفاق باقی 42.5 فیصد رکھتا ہے۔
تاہم وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے مالی حالات کو دیکھتے ہوئے وفاقی حصہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

صوبائی حکومتیں، خاص طور پر سندھ اور خیبرپختونخوا، اس تجویز کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی صوبائی خودمختاری پر ضرب ہوگی۔


ماہرین کی رائے

آئینی ماہر ڈاکٹر فرید حسین کے مطابق:

“اگر آرٹیکل 243 میں فیلڈ مارشل کی حیثیت واضح نہیں کی جاتی تو آئینی ابہام پیدا ہوگا۔ لیکن سپریم کمانڈ صدر کے پاس ہی رہے گی کیونکہ یہی وفاقی نظام کی علامت ہے۔”

جبکہ سیاسی تجزیہ کار عارف نظامی (مرحوم) کے قریبی ساتھی اور مبصر سجاد ملک کے مطابق:

“ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل کی حیثیت مضبوط کرنا اور تعلیم کو وفاق میں لانا دراصل پاور سینٹر کو مرکز میں مرکوز کرنے کا عمل ہے، جس سے وفاق-صوبہ توازن متاثر ہو سکتا ہے۔”


کیا 27ویں ترمیم وقت کی ضرورت ہے؟

26ویں ترمیم پر عمل درآمد کے اثرات ابھی سامنے نہیں آئے اور محض ایک سال بعد نئی ترمیم کا اعلان اپوزیشن جماعتوں کے لیے سیاسی چیلنج بن گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق آئینی ترامیم اسی وقت کی جانی چاہییں جب وسیع سیاسی اتفاق رائے موجود ہو، کیونکہ آئین ریاست کی بنیاد ہے۔

ایک سابق سینیٹر کے مطابق:

“27ویں آئینی ترمیم اگر تمام سیاسی قوتوں کی مشاورت کے بغیر منظور کی گئی تو یہ استحکام کے بجائے آئینی انتشار پیدا کر سکتی ہے۔ اس وقت ملک کو اتفاق رائے کی ضرورت ہے، خفیہ ترامیم کی نہیں۔”


نتیجہ

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم اس وقت پاکستان کے سیاسی، آئینی اور دفاعی منظرنامے میں سب سے اہم بحث بن چکی ہے۔
اس ترمیم کے ذریعے جہاں فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ دینے کا امکان ہے، وہیں صوبائی خودمختاری، تعلیمی اختیارات اور مالی وسائل کی تقسیم جیسے بنیادی معاملات بھی ایک نئے زاویے سے زیرِ بحث آ گئے ہیں۔

فی الحال حکومت نے اس ترمیم کا ڈرافٹ عوام کے سامنے نہیں رکھا، جس سے قیاس آرائیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ترمیم شفاف انداز میں پارلیمان میں پیش نہ کی گئی تو یہ نہ صرف سیاسی تنازعہ بلکہ وفاقی توازن کے لیے بھی ایک بڑا امتحان بن سکتی ہے۔


اختتامیہ:
“27ویں آئینی ترمیم محض قانونی ترمیم نہیں بلکہ ایک نئے طاقت کے ڈھانچے کی بنیاد بھی بن سکتی ہے — جس میں آئینی اختیار، عسکری قوت، اور صوبائی خودمختاری کے درمیان نئی لکیر کھینچی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا سیاسی نظام اس نئی لکیر کو برداشت کر پائے گا؟”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button