پاکستاناہم خبریں

بلوچستان میں اقتدار کی اڑھائی سالہ شراکت کا مبینہ فارمولا — سیاسی گرما گرمی میں اضافہ، شکوک و شبہات برقرار

مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت سازی کے وقت دونوں جماعتوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھا,پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت اس بات کی سختی سے تردید کر رہی ہے

خصوصی رپورٹ وائس آف جرمنی -پاکستان نیوز ڈیسک

بلوچستان کی سیاست ایک بار پھر اقتدار کی مبینہ اڑھائی سالہ تقسیم کے معاملے پر ہلچل کا شکار ہے۔ صوبے میں حکمران اتحادی جماعتیں — پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی — اس وقت عوامی بیانات اور تردیدوں کے ذریعے ایک دوسرے کے مقابل کھڑی نظر آتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ حکومت سازی کے وقت دونوں جماعتوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق موجودہ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی اپنی اڑھائی سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد وزارتِ اعلیٰ ن لیگ کو منتقل کریں گے۔

تاہم پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت اس بات کی سختی سے تردید کر رہی ہے، جب کہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے بھی ایسے کسی معاہدے سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کے نزدیک کوئی "اہم معاملہ” نہیں۔


پسِ منظر: انتخابات اور حکومت سازی کا فارمولا

فروری 2024 کے عام انتخابات میں بلوچستان اسمبلی میں کوئی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) تقریباً برابر نشستوں کے ساتھ سامنے آئیں اور دیگر جماعتوں سے اتحاد کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے تعاون پر راضی ہو گئیں۔ اسلام آباد میں دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کے درمیان طے پانے والے فارمولے کے تحت وزارتِ اعلیٰ پیپلز پارٹی کو دی گئی، جب کہ گورنر، اسپیکر اور چند اہم وزارتیں مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئیں۔

نتیجتاً مارچ 2024 میں پیپلز پارٹی کے میر سرفراز احمد بگٹی وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ اگرچہ آئینی طور پر ان کی مدت مارچ 2029 تک ہے، مگر چند ماہ بعد ہی ن لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے "اڑھائی سالہ معاہدے” کی بازگشت سنائی دینے لگی۔


ن لیگ کے دعوے — پیپلز پارٹی کی تردید

سب سے پہلے گورنر بلوچستان شیخ جعفر مندوخیل نے اس مبینہ معاہدے کا ذکر کیا، جس کے بعد وفاقی وزیر جام کمال خان اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں نے بھی اسی مؤقف کی تائید کی۔
حالیہ دنوں میں صوبائی وزرا عبدالرحمان کھیتران اور زرک خان مندوخیل نے بھی کھل کر کہا کہ "بلوچستان میں حکومت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے شدہ اڑھائی سالہ فارمولا کے مطابق چل رہی ہے۔”

پیپلز پارٹی کی جانب سے ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے صوبائی وزیر صادق عمرانی نے کہا، "ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی اپنی آئینی پانچ سالہ مدت پوری کرے گی۔”

انہوں نے یہ بھی کہا کہ "اگر وفاق میں پیپلز پارٹی اپنی حمایت واپس لے تو ن لیگ کی حکومت مرکز میں ختم ہو جائے گی، اس لیے ایسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔”

پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک نے ایک طنزیہ انداز میں کہا:
"اگر واقعی کوئی معاہدہ ہے تو پھر ہم اڑھائی سال بعد حکومت ن لیگ کو دے دیں گے، اور بدلے میں مرکز میں ن لیگ ہمیں حکومت دے دے — بلاول بھٹو وزیراعظم بن جائیں گے۔”


وزیراعلیٰ بگٹی کی خاموشی یا لاعلمی؟

وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ انہیں ایسے کسی معاہدے کے بارے میں پارٹی قیادت نے آگاہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا:
"بلوچستان میں پاور شیئرنگ فارمولے کی باتیں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے سن رہا ہوں۔ میرے لیے یہ کوئی اہم معاملہ نہیں۔ ہمیں اس وقت بڑے چیلنجز درپیش ہیں — اقتدار آنی جانی چیز ہے، میں اپنا کام کرتا رہوں گا۔”

سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ کی یہ محتاط گفتگو اس بات کا اشارہ ہے کہ معاملہ صرف بیانات تک محدود نہیں بلکہ پسِ پردہ کچھ نہ کچھ طے ضرور پایا ہے، جسے فی الحال خفیہ رکھا جا رہا ہے۔


’مری معاہدہ‘ کی یاد تازہ

یہ صورتحال بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں کوئی نئی نہیں۔
2013 میں مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی کے درمیان بھی "اڑھائی اڑھائی سال” کے اقتدار کی شراکت کا فارمولا طے پایا تھا، جسے "مری معاہدہ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس وقت ن لیگ نے سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا۔
اڑھائی سال بعد دسمبر 2015 میں وزارتِ اعلیٰ نواب ثنااللہ زہری کو منتقل کر دی گئی — مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا میں دونوں جماعتوں نے معاہدے کی تردید کی تھی۔

سینیئر صحافی رشید بلوچ کے مطابق "بلوچستان میں اکثر ایسے معاہدے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ 2013 کے مری معاہدے سے بھی بہت سے ارکان اسمبلی لاعلم تھے۔”


سیاسی تجزیے — "خاموشی بہت کچھ کہہ رہی ہے”

سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے:
"اگر واقعی کوئی معاہدہ نہیں تھا تو دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت واضح تردید کیوں نہیں کرتی؟ گورنر مندوخیل اور جام کمال جیسے رہنماؤں کے بارہا بیانات کے باوجود قیادت کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ پسِ پردہ کچھ نہ کچھ موجود ہے۔”

ان کے مطابق، "ممکن ہے کہ دونوں جماعتیں کسی وقت ایڈجسٹمنٹ کر لیں — شاید مرکز اور صوبے کے درمیان کچھ لین دین ہو۔”


عملی سیاست: دباؤ، کمزور اپوزیشن اور غیر متحرک قیادت

رشید بلوچ کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اس وقت وزیراعلیٰ بگٹی کے خلاف کوئی مؤثر اپوزیشن موجود نہیں۔
"ن لیگ کے اندر بھی کوئی مضبوط لابنگ نہیں، چند ارکان کے بیانات سے زیادہ کچھ نہیں۔ مرکز میں ن لیگ کی قیادت کی توجہ بلوچستان سے زیادہ پنجاب اور وفاقی سیاست پر مرکوز ہے۔”

ان کے بقول، "بلوچستان میں ن لیگ کے پاس زیادہ تر الیکٹیبلز ہیں جو حالات کے مطابق وفاداریاں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔”


اقتدار کی ممکنہ تبدیلی اور اس کے اثرات

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر واقعی وزارتِ اعلیٰ ن لیگ کو منتقل کی گئی تو اس کے ساتھ گورنر، سینیئر وزرا اور اہم محکمے بھی تبدیل ہو جائیں گے، جس سے انتظامی تسلسل متاثر ہو سکتا ہے۔
سینیئر صحافی خلیل احمد کے مطابق "بلوچستان میں اکثر دو اڑھائی سال بعد حکومتیں بدلتی ہیں، جس سے ترقیاتی منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں۔”

رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ "کچھ وزرائے اعلیٰ مثلاً ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور جام کمال اگر اپنی مدت مکمل کرتے تو شاید صوبے میں تسلسل آتا، مگر کچھ دیگر وزرائے اعلیٰ کے پاس واضح وژن ہی نہیں۔”

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق "بلوچستان میں وزیراعلیٰ کے بدلنے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہاں حکومتیں اسلام آباد کی مرضی سے چلتی ہیں۔”


’تیسری قوت‘ کا کردار

کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں ہمیشہ سے ایک "غیر سیاسی قوت” فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتی آئی ہے۔
رشید بلوچ کے مطابق:
"اگر وہ قوت چاہے تو سرفراز بگٹی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لیں گے، اور اگر نہ چاہے تو تبدیلی اس سے پہلے بھی آ سکتی ہے۔”


نتیجہ

بلوچستان کی سیاست ایک بار پھر غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔
ایک طرف ن لیگ اپنے حصے کی حکومت کا دعویٰ کر رہی ہے، دوسری جانب پیپلز پارٹی اس کی سختی سے تردید کر رہی ہے، اور دونوں کی مرکزی قیادت خاموش ہے۔
مبصرین کے مطابق آنے والے مہینے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں — کہ آیا بلوچستان میں ایک اور "اڑھائی سالہ معاہدہ” حقیقت بنے گا یا تاریخ صرف خود کو دہرا رہی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button