پاکستاناہم خبریں

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا ’’یومِ شہدائے جموں‘‘ پر پیغام — پاکستان کا کشمیریوں سے غیر متزلزل یکجہتی کا عزم

’’جموں کا قتل عام جدید انسانی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک ہے۔ افسوس کہ دنیا نے اس سانحے کو کبھی اس طرح یاد نہیں رکھا جس طرح یہ یاد رکھے جانے کے قابل تھا۔‘‘

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے ’’یومِ شہدائے جموں‘‘ کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں 6 نومبر 1947 کے دل دہلا دینے والے واقعات کو برصغیر کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو اس دن ہونے والی مسلم نسل کشی کو تسلیم کرنا ہوگا اور بھارت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جواب دہ ٹھہرانا چاہیے۔

صدرِ مملکت نے کہا کہ 6 نومبر 1947 کو ڈوگرہ مہاراجہ کی افواج نے، آر ایس ایس کے انتہا پسندوں اور پٹیالہ و کپورتھلہ کے مسلح گروہوں کے ساتھ مل کر جموں میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی تھی۔ اس منظم قتل عام میں دو لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان شہید کیے گئے جبکہ نصف ملین سے زیادہ افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر سیالکوٹ اور گرد و نواح کے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

صدر زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ:

’’جموں کا قتل عام جدید انسانی تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک ہے۔ افسوس کہ دنیا نے اس سانحے کو کبھی اس طرح یاد نہیں رکھا جس طرح یہ یاد رکھے جانے کے قابل تھا۔‘‘


جموں کے سانحے کو "منظم نسل کشی” قرار

صدرِ پاکستان نے کہا کہ 6 نومبر 1947 کے واقعات کسی عام نسلی یا مذہبی تصادم کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ ایک منظم نسل کشی تھی، جس کے تحت مسلم اکثریت والے جموں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی۔

ان کے مطابق، ’’پورے دیہات جلا دیے گئے، خاندان تباہ ہوئے اور ایک خطے کی آبادی کا نقشہ ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام آج بھی اس دن کو اپنے ان بے گناہ شہداء کی یاد میں مناتے ہیں جنہیں صرف ان کے مذہب اور شناخت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔


بھارتی مظالم کی نئی شکل — "آبادیاتی انجینئرنگ”

صدر زرداری نے واضح کیا کہ 1947 میں شروع ہونے والا ظلم آج بھی بھارتی غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈوگرہ حکمرانوں اور آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کی ریاستی سرپرستی میں کی جانے والی قتل و غارت اب بھارتی ریاست کے ہاتھوں ایک منظم آبادیاتی انجینئرنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔

ان کے بقول، ’’اگست 2019 میں بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-اے کی منسوخی، زمینوں پر قبضہ، غیر مقامی افراد کی آباد کاری، اور کشمیری شناخت کو دبانے کی پالیسیاں دراصل اسی نسل کشی کے تسلسل کی شکل ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بھارت اس منصوبے کے تحت جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی تشخص کو مٹانے کے لیے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کر رہا ہے۔


"دنیا کی خاموشی قابلِ افسوس”

صدر زرداری نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارتی اقدامات پر خاموشی ترک کرے۔

انہوں نے کہا:

’’بھارتی غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں تقریباً 10 لاکھ فوجیوں کی موجودگی نے اس خطے کو دنیا کے سب سے زیادہ فوجی تسلط والے علاقوں میں شامل کر دیا ہے۔ عالمی برادری کو کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔‘‘

صدر نے اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ جموں کے قتل عام کو نسل کشی (Genocide) کے طور پر تسلیم کریں اور بھارت کو جنیوا کنونشنز اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ ٹھہرائیں۔


پاکستان کا عزم — ’’کشمیریوں کی ہر سطح پر حمایت جاری رہے گی‘‘

صدرِ مملکت نے اس موقع پر جموں کے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

ان کے بقول، ’’پاکستان کشمیری عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ ہم ان کی جدوجہدِ آزادی کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق جائز سمجھتے ہیں۔‘‘

صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری سے یہ مطالبہ دہراتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ خود ارادیت کے لیے مؤثر اقدامات کرے تاکہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔


’جموں کے شہداء، آزادی کی جدو جہد کی علامت‘

صدرِ مملکت نے اپنے پیغام کا اختتام ان الفاظ پر کیا:

’’جموں کے شہداء صرف تاریخ کا حصہ نہیں بلکہ وہ کشمیری عوام کی آزادی کی اُس جدوجہد کی علامت ہیں جو 1947 سے آج تک جاری ہے۔ پاکستان ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتا ہے اور انصاف، وقار اور آزادی کے ان کے عزم کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔‘‘


پسِ منظر: جموں کا قتلِ عام — ایک تاریخی المیہ

تاریخی ریکارڈ کے مطابق، نومبر 1947 میں جب برصغیر کی تقسیم کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق سے انکار کیا، تو جموں کے مسلمانوں کو منظم طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ڈوگرہ فوج، آر ایس ایس کے کارکنان، اور دیگر انتہا پسند گروہوں نے مسلمانوں کے گاؤں جلا دیے، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کیا اور ہزاروں کو قافلوں کی صورت میں پاکستان کی سرحد کی جانب دھکیل دیا۔

اقوامِ متحدہ کے ابتدائی مشاہدین نے اسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی کی جبری نقل مکانی قرار دیا تھا۔


نتیجہ: 78 سال بعد بھی سوال باقی ہے

جموں کے سانحے کو 78 سال گزر چکے ہیں، مگر کشمیری عوام اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
صدر آصف علی زرداری کے الفاظ میں، ’’یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم عارضی ہو سکتا ہے مگر سچائی اور حریت کی روح کبھی مٹائی نہیں جا سکتی۔‘‘

پاکستان کے صدر کا یہ پیغام نہ صرف جموں کے شہداء کو خراجِ عقیدت ہے بلکہ یہ دنیا کے لیے ایک یاد دہانی بھی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ آج بھی حل طلب ہے — اور انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button