
بھارتی فلمساز راجا مولی اپنے متنازع بیان پر ہندو برادری کی شدید تنقید کی زد میں
"میں بھگوان پر یقین نہیں رکھتا۔ میرے والد نے آ کر کہا کہ بھگوان ہنومان میرے پیچھے کھڑے ہیں اور وہ میری رہنمائی کر رہے ہیں۔ یہ سن کر میں غصے میں آ گیا۔"
نئی دہلی: بھارت کے معروف فلمساز اور عالمی سطح پر شہرت یافتہ ہدایت کار ایس ایس راجا مولی ان دنوں اپنے ایک حالیہ بیان کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہیں، جس میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ خدا پر یقین نہیں رکھتے اور بھگوان ہنومان سے متعلق والد کی گفتگو نے انہیں ’’ناراض‘‘ کر دیا تھا۔ راجا مولی کا یہ بیان ان کی نئی فلم "وارانسی” کی لانچ تقریب کے دوران سامنے آیا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی اور انہیں مختلف حلقوں کی جانب سے سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لانچ ایونٹ میں متنازع بیان
حیدرآباد کی مشہور راموجی فلم سٹی میں فلم وارانسی کی نقاب کشائی کے موقع پر راجا مولی نے ایک بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"میں بھگوان پر یقین نہیں رکھتا۔ میرے والد نے آ کر کہا کہ بھگوان ہنومان میرے پیچھے کھڑے ہیں اور وہ میری رہنمائی کر رہے ہیں۔ یہ سن کر میں غصے میں آ گیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان کی اہلیہ بھی بھگوان ہنومان سے غیر معمولی عقیدت رکھتی ہیں اور ان سے اس طرح بات کرتی ہیں جیسے وہ ان کی دوست ہوں، جس پر وہ اکثر ناراض ہو جاتے ہیں۔
یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب فلم کے لانچ ایونٹ میں تکنیکی خرابی سامنے آئی، جس کے تناظر میں راجا مولی نے اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کیا۔
راجا مولی کو تنقید کا سامنا کیوں؟
راجا مولی کی فلمیں—خصوصاً باہوبلی اور آر آر آر—ہندو اساطیر اور مذہبی کہانیوں سے گہری مماثلت رکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا یہ بیان بہت سے لوگوں کو متضاد محسوس ہوا اور انہیں ہندو برادری کے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
سوشل میڈیا پر تنقید کی لہر
ہندو صارفین کا کہنا ہے کہ اگر راجا مولی خدا پر یقین نہیں رکھتے تو انہیں مذہبی کرداروں اور ہندو اساطیر سے متاثر فلمیں بنانے کا بھی حق نہیں۔ متعدد صارفین نے کہا کہ:
’’اگر وہ خدا پر یقین نہیں رکھتے تو ’وارانسی‘ جیسے نام کیوں؟‘‘
’’ہنومان جی پر تبصرہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
’’مذہب کو فلموں میں استعمال کرکے پیسہ کمانے کا مقصد واضح ہے۔‘‘
ایک صارف نے لکھا کہ اگر بالی ووڈ کا کوئی ہدایت کار ایسا بیان دیتا تو ملک بھر میں ہنگامہ برپا ہو جاتا۔
ایک اور صارف نے کہا کہ راجا مولی ملحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن فلموں میں وہی مذہبی کردار دکھاتے ہیں جنہیں وہ ذاتی طور پر نہیں مانتے، جو منافقت کے مترادف ہے۔
کچھ لوگوں کی حمایت بھی سامنے آئی
تاہم سوشل میڈیا کے کچھ حلقوں نے راجا مولی کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ:
انہوں نے کوئی کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اپنے ذاتی خیالات بیان کیے ہیں۔
ایک فنکار مذہبی عقائد سے پرے ہو کر بھی مذہبی یا اساطیری کہانیاں تخلیقی انداز میں پیش کر سکتا ہے۔
کسی کا ملحد ہونا اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو محدود نہیں کرتا۔
ان صارفین کے مطابق راجا مولی کے بیان کو ’’غلط تناظر‘‘ میں پیش کیا جا رہا ہے۔
فلم ‘وارانسی‘ کے بارے میں کیا معلوم ہے؟
نئی فلم وارانسی میں پریانکا چوپڑا اور مہیش بابو اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ فلم کی شوٹنگ کے ابتدائی مراحل جاری ہیں اور اسے ریلیز ہونے میں ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔ تاہم فلم کی لانچ تقریب کے دوران پیدا ہونے والی بحث نے فلم کے آغاز سے پہلے ہی اسے خبروں میں لا کھڑا کیا ہے۔
ہندوستان میں مذہب اور فلم کا حساس تعلق
راجا مولی کے بیان نے بھارت میں ایک بار پھر اس بحث کو تازہ کر دیا ہے کہ:
کیا مذہبی عقائد اور فنکار کی ذاتی سوچ الگ رہنی چاہیے؟
کیا مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے تبصروں کی اجازت ہونی چاہیے؟
اور کیا عوامی شخصیات پر مذہبی حساسیت کے لحاظ سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟
ہندوستان میں ہندو اساطیر، فلم اور عوامی جذبات کے گہرے تعلق کی وجہ سے ایسے بیانات عام طور پر تنازعات کا سبب بنتے رہے ہیں۔
فی الحال، وارانسی کی ریلیز میں وقت ہے لیکن راجا مولی کے اس بیان نے فلم کے آغاز سے پہلے ہی انہیں تنازع کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے، اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔



