
ڈھاکہ — شیخ حسینہ کو سزائے موت، اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش
یہ فیصلہ پیر 17 نومبر کو سنایا گیا، جس کے فوراً بعد ملک بھر میں شدید ردِعمل سامنے آیا، متعدد شہروں میں احتجاج، توڑ پھوڑ اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
ڈھاکہ/جنیوا: بنگلہ دیش کی سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کو ڈھاکہ میں قائم انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد اقوام متحدہ نے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ ان افراد کے خاندانوں کے لیے "اہم لمحہ” قرار دیا جا سکتا ہے جو ماضی میں حکومتی کریک ڈاؤن کا نشانہ بنے، لیکن شیخ حسینہ کو سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
یہ فیصلہ پیر 17 نومبر کو سنایا گیا، جس کے فوراً بعد ملک بھر میں شدید ردِعمل سامنے آیا، متعدد شہروں میں احتجاج، توڑ پھوڑ اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
اقوام متحدہ کی تشویش
جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ترجمان راوینا شمدسانی نے ایک بیان میں کہا:
"ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ مقدمہ شیخ حسینہ کی غیر حاضری میں چلایا گیا، اور شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کارروائی ممکنہ طور پر بین الاقوامی قانونی معیار اور منصفانہ ٹرائل کے تقاضوں پر پوری نہیں اتری۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ ہر صورتِ حال میں سزائے موت کی مخالفت کرتا ہے:
"ہم عدالتی فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، کیونکہ ہم تمام حالات میں موت کی سزا کے خلاف ہیں۔”
ٹرائل اور عدالتی فیصلہ
ڈھاکہ کی عدالت نے گزشتہ سال حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہونے والے کریک ڈاؤن کے سلسلے میں شیخ حسینہ پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے ارتکاب کی منظوری دی۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد عدالت میں موجود افراد نے خوشی کا اظہار کیا اور تالیاں بجائیں۔ اس ٹرائل کی کارروائی پیر کے روز قومی ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کی گئی، جسے لاکھوں افراد نے دیکھا۔
عدالتی فیصلے کا عوام اور سیاسی حلقوں میں شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا، کیونکہ بنگلہ دیش میں گزشتہ برس ہونے والی سیاسی بے چینی نے ملک کو تقسیم کی راہ پر ڈال دیا تھا۔
بنگلہ دیش میں پُرتشدد ردِعمل
فیصلے کے فوراً بعد ڈھاکہ سمیت متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھڑک اٹھے۔ کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا، اور اہم شاہراہیں بند کر دی گئیں۔
رپورٹس کے مطابق:
سرکاری پارٹی عوامی لیگ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ٹکراؤ
بڑے شہروں میں کاروبارِ زندگی متاثر
سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے پہلے سے کشیدہ سیاسی ماحول کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
سیاسی تقسیم میں مزید اضافہ؟
عالمی سطح پر بھی اس فیصلے پر بحث جاری ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ:
عوامی لیگ پر ممکنہ پابندیاں
حزبِ اختلاف کی نئی تحریک
اندرونی سیاسی انتشار میں اضافہ
ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا:
"17 کروڑ آبادی والے ملک کو مزید تقسیم کی طرف دھکیلنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔”
عالمی ردِعمل ابھی جاری
اگرچہ اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر فیصلے پر تشویش ظاہر کی ہے، لیکن امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ دیگر عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ہمسایہ ممالک بھی آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں میں اپنے ردِعمل کا اعلان کریں گے۔
فی الحال بنگلہ دیش سیاسی بحران کی ایک نئی، غیر یقینی اور ممکنہ طور پر خطرناک صورتِ حال میں داخل ہو چکا ہے، جس کے ملکی استحکام پر گہرے اثرات متوقع ہیں۔



