
سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے لیے شراب کی پابندیوں میں نرمی؛ پریمیم ویزا ہولڈرز کو سرکاری لائسنس یافتہ دکان سے خریداری کی اجازت
’’یہ بڑی تبدیلی ہے۔ پہلے بلیک مارکیٹ سے انتہائی مہنگے داموں شراب خریدنا پڑتی تھی۔ اب سرکاری دکان سے عام قیمت پر دستیاب ہے۔‘‘پریمیم ویزا ہولڈر
ریاض: سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے لیے شراب کی خریداری پر عائد قدیم پابندیوں میں خاموشی سے نرمی کی جا رہی ہے، جس کے بعد اب پریمیم ریزیڈنسی رکھنے والے غیر مسلم غیر ملکی شہری بھی ریاض کی واحد سرکاری طور پر مجاز شراب کی دکان سے خریداری کر سکتے ہیں۔ یہ اقدام ملک میں جاری سماجی اور معاشی اصلاحات کے سلسلے کی ایک اور نمایاں مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سفارتی ذرائع اور پریمیم ویزا ہولڈرز نے تصدیق کی ہے کہ وہ گزشتہ چند دنوں کے دوران اس مخصوص سرکاری اسٹور سے باقاعدہ خریداری کرنے میں کامیاب رہے۔ اس سے قبل یہ سہولت صرف سفارت کاروں تک محدود تھی اور عام غیر ملکی شہری اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔
پہلی مرتبہ پریمیم ریزیڈنسی ہولڈرز کو رسائی
دو سفارتی ذرائع اور دو پریمیم ویزا رکھنے والے غیر ملکیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں انہیں پہلی بار اس اسٹور سے خریداری کی اجازت دی گئی ہے۔
ایک پریمیم ویزا ہولڈر نے کہا:
’’یہ بڑی تبدیلی ہے۔ پہلے بلیک مارکیٹ سے انتہائی مہنگے داموں شراب خریدنا پڑتی تھی۔ اب سرکاری دکان سے عام قیمت پر دستیاب ہے۔‘‘
ریاض میں یہ واحد سرکاری اسٹور ہے جسے سعودی حکام نے مخصوص قوانین کے تحت غیر مسلم خریداروں کے لیے قائم کیا ہوا ہے۔ تاہم اس دکان تک عمومی عوام یا مسلمان شہریوں کی رسائی بدستور ممنوع ہے۔
دکان پر غیر معمولی رش — درجنوں بوتلوں کی خریداری
ذرائع کے مطابق اس نئی سہولت کے بعد اسٹور پر غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا ہے۔
بعض خریداروں نے بیک وقت درجنوں بوتلیں خریدیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رسائی کافی عرصے سے مطلوب تھی۔
ایک خریدار نے بتایا کہ:
’’اس دکان میں اچانک اتنی زیادہ گہما گہمی تھی جیسے کسی نئے مال کا افتتاح ہوا ہو۔‘‘
سعودی عرب کی بتدریج سماجی و معاشی اصلاحات
یہ تبدیلی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دور میں متعارف کرائی گئی اصلاحات کا تسلسل ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران سعودی عرب نے:
خواتین کی ڈرائیونگ کی اجازت
سینما گھروں کا آغاز
سیاحت کے شعبے کی توسیع
عوامی تفریحی تقریبات
غیر ملکی سرمایہ کاری اور ورک ویزوں میں آسانیاں
جیسے کئی اقدامات متعارف کرائے، جن کا مقصد ملک کی معیشت کو تیل کے انحصار سے نکال کر متنوع معاشی ڈھانچے کی طرف لے جانا ہے۔
تاہم یہ بات اہم ہے کہ سعودی عرب میں 1952 سے شراب پر سرکاری پابندی بدستور برقرار ہے، اور ملکی شہریوں کے لیے شراب نوشی قانوناً جرم ہے۔
پریمیم ریزیڈنسی پروگرام — پس منظر
2019 میں شروع ہونے والا پریمیم ریزیڈنسی پروگرام ایسے غیر ملکیوں کے لیے متعارف کیا گیا تھا جو:
8 لاکھ سعودی ریال فیس ادا کریں
مخصوص مالی، سیکورٹی اور رہائشی شرائط پوری کریں
اس پروگرام کے تحت ملنے والے خصوصی کارڈ کے حامل افراد:
کفیل کے بغیر سعودی عرب میں رہ سکتے ہیں
آزادانہ کاروبار اور سرمایہ کاری کر سکتے ہیں
متعدد سرکاری سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں
نئے اقدام کے بعد اب انہیں سرکاری شراب اسٹور سے خفیہ مگر قانونی خریداری کی بھی اجازت مل گئی ہے، جو پہلے صرف سفارتی مشنز تک محدود تھی۔
حکومت کی خاموشی — باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا
سعودی حکام نے خبر شائع ہونے تک اس پیش رفت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کی طرف سے نئی پالیسی کا اعلان سامنے آیا ہے۔
عموماً سعودی حکومت ایسے حساس معاملے میں ’’خاموش پالیسی‘‘ اختیار کرتی ہے، اور عملی سطح پر نرمی عمل میں لائی جاتی ہے، جس کا باقاعدہ اعلان بعد میں ممکن ہوتا ہے۔
تجزیہ — سعودی عرب کہاں جا رہا ہے؟
ماہرین کے مطابق:
یہ اقدام سعودی عرب کی ویژن 2030 پالیسی کے مطابق معاشی ماحول کو زیادہ پرکشش بنانے کی کوشش کا حصہ ہے۔
غیر ملکی ماہرین اور سرمایہ کاروں کی تعداد بڑھانے کے لیے لائف اسٹائل میں نرمی اہم سمجھی جا رہی ہے۔
شراب کی پابندی میں نرمی ’’بہت محدود اور مخصوص اور صرف غیر مسلم خریداروں تک‘‘ رکھی گئی ہے تاکہ مذہبی حساسیت متاثر نہ ہو۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے:
’’سعودی حکومت روایتی مذہبی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید معاشی اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘‘
نتیجہ
ریاض میں غیر ملکیوں کے لیے شراب کی پابندی میں نرمی سعودی عرب کی سماجی و معاشی تبدیلیوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
اگرچہ سرکاری طور پر کوئی اعلان نہیں کیا گیا، لیکن نئے اشاروں سے واضح ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی سرمایہ کاروں، ماہرین اور طویل مدتی غیر ملکی باشندوں کے لیے ملک کو زیادہ ’’قابلِ رہائش‘‘ بنانے کی حکمت عملی پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔



