یورپاہم خبریں

یوکرین کی جنگ سے اسلحہ ساز کمپنیوں کی چاندی، سپری

''گزشتہ دو برسوں میں ان اسلحہ ساز کمپنیوں کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

مصنفہ: کرسٹوف ہاسل باخ

یورپی اور خاص طور پر جرمن اسلحہ ساز کمپنیوں کی 2024 میں فوجی سازوسامان کی فروخت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ یوکرین میں جاری جنگ ہے۔

یہ 2023 کے مقابلے میں 5.9 فیصد اضافہ ہے۔ اس وقت بھی بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور خصوصاً یوکرین کی جنگ نے اسلحہ کی مانگ میں اضافہ کر دیا تھا۔ 2024 میں یہ رجحان مزید تیز ہو گیا۔

تو کیا روس کی یوکرین کے خلاف جنگ دوسری جگہ کاروبار کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے؟ سیپری کے ماہر اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک نان ٹیان نے سے بات کرتے ہوئے کہا: ”دفاع کے شعبے کے لیے تو یقیناً۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ”گزشتہ دو برسوں میں ان اسلحہ ساز کمپنیوں کی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے نئے فوجی سازوسامان کی تیاری، ذخائر کی دوبارہ بھرائی اور تباہ شدہ آلات کا متبادل تیار کرنا۔

جرمن کمپنیوں کی غیر معمولی ترقی کی شرح

فہرست میں شامل 100 کمپنیوں میں سے 39 کا تعلق امریکہ سے ہے، جو اس شعبے میں سب سے آگے ہیں۔ یہ 39 کمپنیاں دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت سے ہونے والی آمدن کے تقریباً نصف حصے کی مالک ہیں۔ تاہم ان کی ترقی کی شرح 3.8 فیصد رہی جو نسبتاً کم ہے۔ اس کے برعکس روس کو چھوڑ کر یورپ کی 26 کمپنیوں نے مجموعی طور پر اپنی آمدن میں 13 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔

جرمن کمپنیوں نے خاص طور پر شاندار کارکردگی دکھائی ہے، جہاں ترقی کی شرح 36 فیصد تک پہنچ گئی۔ نان ٹیان کے مطابق ”یہ تقریباً مکمل طور پر روس کے یوکرین پر حملے سے منسلک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ”جرمن مسلح افواج کی جانب سے مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ چاہے وہ رائن میٹل ہو یا ڈیل، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، اور گولہ بارود کی تیاری۔ ایک طرف جرمنی نے جو امداد کے طور پر یوکرین بھیجا، اس کی بھرپائی کے لیے اور دوسری طرف اپنے ٹینکوں اور انفنٹری فائٹنگ گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے لیے۔‘‘

مشاہدین امریکی طیارہ بردار بحری جہاز تھیوڈور روزویلٹ کے ڈیک سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں جب ایک امریکی ایف-18 لڑاکا طیارہ لینڈ کر رہا  ہے
فہرست میں شامل 100 کمپنیوں میں سے 39 کا تعلق امریکہ سے ہے، جو اس شعبے میں سب سے آگے ہیں۔تصویر: Jim Gomez/AP Photo/picture alliance

پابندیوں کے باوجود روس کی جنگی معیشت ترقی کی راہ پر

سپری کی درجہ بندی میں روس کو الگ سے شامل کیا گیا ہے۔ اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ روسی اسلحہ ساز کمپنیوں نے نمایاں ترقی دکھائی ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث روس کی برآمدی آمدنی میں کمی آئی، لیکن ملکی سطح پر بڑھتی ہوئی مانگ نے ان نقصانات کی بھرپائی کر دی۔

نان ٹیان کے مطابق روس ایک خاص کیس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ملک نے اپنی ترجیحات مکمل طور پر بدل دی ہیں۔ گزشتہ تین سال سے پیداوار ایک جنگی معیشت کے تحت ہو رہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق تمام وسائل جنگ کے لیے وقف کر دیے گئے ہیں۔ سپری کی رپورٹ کے مطابق روس نے 2022 سے 2024 کے درمیان 152 ملی میٹر توپ خانے کے گولوں کی پیداوار میں 420 فیصد اضافہ کیا۔ یعنی 2.5 لاکھ سے بڑھا کر 13 لاکھ تک۔

بین الاقوامی پابندیوں کے باعث روسی اسلحہ صنعت کو بیرون ملک سے پرزوں، خصوصاً طیاروں کے لیے الیکٹرانکس کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ تاہم، نان ٹیان کے مطابق یہ اندازہ غلط ثابت ہوا کہ روسی معیشت پابندیوں کے باعث تباہ ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا، ”ملک کی صورتحال اب یقیناً اس سے زیادہ خراب ہے جتنی یوکرین پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں ہوتی کیونکہ تب پابندیاں نہ ہوتیں، مگر اس کے باوجود ملک نے مختلف پابندیوں اور معاشی مسائل کے مقابلے میں خاصی مزاحمت دکھائی ہے۔‘‘

نان ٹیان کا خیال ہے کہ روسی معیشت میں تبدیلی اس حد تک ہو چکی ہے کہ اگر یوکرین میں دیرپا امن بھی قائم ہو جائے، تب بھی روس کے لیے دوبارہ غیر جنگی معیشت کی طرف لوٹنا مشکل ہو گا۔

کرپشن کے باعث چینی اسلحہ ساز کمپنیوں کی آمدنی میں کمی

امریکہ اور یورپ کے بعد ایشیا تیسرے نمبر پر ہے، جہاں 23 اسلحہ ساز کمپنیاں فہرست میں شامل ہیں۔ لیکن ایشیا واحد خطہ ہے جہاں کمپنیوں کی آمدنی 2023 کے مقابلے میں کم رہی۔ خاص طور پر چین کی کمپنیوں کی آمدنی میں نمایاں 10 فیصد تک کمی ہوئی۔ سپری کی رپورٹ کے مطابق کسی اور ملک میں اس قدر کمی ریکارڈ نہیں ہوئی۔

نان ٹیان نے کہا، ”اس کا تعلق خطے کے پُرامن ہونے سے تقریباً نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کی کہ ”خاص طور پر ایشیا اور چین میں کمی کی وجہ یہ ہے کہ چینی اسلحہ ساز کمپنیوں پر کرپشن کے بہت سے الزامات لگے ہیں۔‘‘ ان الزامات کے باعث بڑے اسلحہ آرڈرز منسوخ یا مؤخر کر دیے گئے۔

دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ کی، کل ملا کر، نو کمپنیوں نے 14 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا۔ سیپری کی سالانہ رپورٹ میں اس خطے کی اتنی زیادہ کمپنیوں کی شمولیت پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ان میں سے تین اسرائیل میں قائم ہیں، جہاں ڈرونز اور فضائی دفاعی نظاموں کی خاصی مانگ ہے۔

اس خطے میں ترکی بھی شامل ہے، جس کی آمدنی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، بائیکار، جسے بائراکتار لڑاکا اور جاسوسی ڈرون بنانے کے لیے جانا جاتا ہے، یوکرین کو 2024 میں ہونے والی اپنی برآمدات کے اعدادوشمار دوبارہ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

 مشرقِ وسطیٰ کی، کل ملا کر، نو کمپنیوں نے 14 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا۔
مشرقِ وسطیٰ کی، کل ملا کر، نو کمپنیوں نے 14 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا۔تصویر: Vitaliy Belousov/SNA/imago

امریکہ میں قائم کمپنیاں سب سے آگے

سپری کے مطابق دنیا کی پانچ سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں یہ ہیں: لاک ہیڈ مارٹن (جو ایف-35 لڑاکا طیارے بناتی ہے)، آر ٹی ایکس، سابق نام ریتھیون ٹیکنالوجیز،(جو طیاروں کے انجن اور ڈرونز تیار کرتی ہے)، نارتھروپ گرومن (جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بناتی ہے)، بی اے ای سسٹمز اور جنرل ڈائنامکس (جو ایٹمی آبدوزیں اور گائیڈڈ میزائل تیار کرتی ہے)۔ بی اے ای سسٹمز کے علاوہ باقی تمام کمپنیاں امریکہ میں واقع ہیں۔

سن دو ہزار سترہ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکہ سے باہر کی کوئی کمپنی، یعنی برطانوی بی اے ای سسٹمز، دنیا کی پانچ سب سے بڑی کمپنیوں میں شامل ہوئی ہے۔ موازنہ کے طور پر، یورپی ایئربس کنسورشیم کا فوجی شعبہ دنیا کی 100 اہم کمپنیوں میں 13ویں نمبر پر ہے، جبکہ جرمن کمپنی رائن میٹل 20ویں مقام پر ہے۔

سن دو ہزار چوبیس میں ان 100 کمپنیوں میں سے چار جرمنی میں قائم تھیں: رائن میٹل، تھائسن کروپ، ہینسولٹ اور ڈیل۔ ان سب کی مجموعی آمدنی 14.9 ارب ڈالر رہی۔ یوکرین کی جنگ کے باعث بڑی تعداد میں آرڈرز موصول ہوئے، خصوصاً ڈیل کو، جس کے زمینی فضائی دفاعی نظاموں کی مانگ میں اضافہ ہوا۔

ایک سو پچپن ملی میٹر توپ خانے کے گولوں کا آرڈر، جو جرمن مسلح افواج (بُنڈس ویئر) کے لیے دیا گیا، کمپنی کی تاریخ کا سب سے بڑا گولہ بارود آرڈر ہے۔ رائن میٹل نے ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور گولہ بارود کی فروخت سے 47 فیصد زیادہ آمدنی حاصل کی۔

کے این ڈی ایس جو جرمن و فرانسیسی ٹینک ساز، کمپنیوں کراس مافی، ویگ مین اور نیکسٹر کا اتحاد ہے،42ویں نمبر پر ہے۔ یہ مشترکہ منصوبہ بھی ترقی کر رہا ہے۔ آرڈرز کی تعداد میں 40 فیصد اضافہ ہوا جو آمدنی کے 14 فیصد اضافے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں بھی یوکرین کی جنگ اور روس کے خطرے نے آرڈرز میں اضافہ یقینی بنایا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button