
کراچی کا واقعہ اور پنجاب کے سیلاب زدگان، ایک دردناک تضاد ….. آفتاب احمد گورائیہ
مگر حیرت اس بات پر ہے کہ پنجاب کے پچاس لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین پر کسی کی زبان نہیں کھلتی
آفتاب احمد گورائیہ
کراچی میں پیش آنے والا واقعہ یقیناً افسوسناک ہے اور اس پر توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔ کراچی والے واقعہ کا ذمہ دار جو بھی ہو، حادثے والے علاقے سے منتخب تمام نمائندوں کا تعلق جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سے ہونے کے باوجود میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے بطور مئیر کراچی اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ننھے ابراہیم کے گھر جا کر لواحقین سے معافی مانگ کر ایک نئی روایت رقم کی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس واقعے کی مکمل انکوائری کر کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ابتدائی انکوائری کے کچھ بڑے بڑے افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
یہاں کچھ ذمہ داری شہریوں کی بھی بنتی ہے کیونکہ گٹر کا ڈھکن چوری ہو جانے یا ٹوٹ جانے کی صورت میں متعلقہ ادارے کو اطلاع دینے کے لئے کراچی میں ایک ہیلپ لائن 1334 پہلے سے موجود ہے جس پر اطلاع دینے کی صورت میں چوبیس گھنٹے کے اندر گٹر کا ڈھکن لگا دیا جاتا ہے۔ یہ حکومت کے کرنے کا کام تھا جو انہوں نے کر رکھا ہے۔ اب اس سے آگے شہریوں کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے کہ وہ جہاں گٹر کا ڈھکن غائب دیکھیں فوری طور پر 1334 پر اس کی اطلاع دیں تاکہ متعلقہ ادارہ چوبیس گھنٹے کے اندر گٹر پر نیا ڈھکن لگا دے تاکہ کسی بھی قسم کے حادثے سے بچا جا سکے۔
کراچی والے واقعہ پر بہت کچھ کہا سنا گیا ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ پنجاب کے پچاس لاکھ سے زائد سیلاب متاثرین پر کسی کی زبان نہیں کھلتی۔ چیختے چنگھاڑتے اینکرز ہوں یا یوٹیوبرز، سیاسی جماعتیں ہوں یا خود کو انسانیت کا ٹھیکیدار کہنے والے تجزیہ کار، سب کے سب پنجاب کے تباہ حال عوام کے معاملے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی زندگی بیس سال پیچھے چلی گئی ہے لیکن ان کے دکھ، ان کے زخم اور ان کی ویران بستیاں قومی مکالمے میں کہیں بھی جگہ نہیں پا سکیں۔
پنجاب میں آنے والا حالیہ سیلاب ہر لحاظ سے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ گھروں سے لے کر کھیتوں تک، مال مویشیوں سے لے کر روزگار تک، ہر چیز پانی بہا لے گیا۔ مگر سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ پنجاب کی حکومت اس بحران کے اصل حجم اور متاثرین کی تکالیف کو سمجھنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی کرائسس مینجمنٹ نہ صرف صفر رہی بلکہ چند نمائشی ویڈیوز اور بلند بانگ دعووں کو ہی کافی سمجھ لیا گیا۔ المیہ یہ بھی ہوا کہ جو کوئی سیلاب متاثرین کے حق میں آواز اٹھاتا، اسے پنجاب پر حملہ قرار دے کر صوبائیت کا کارڈ کھیل دیا جاتا۔
اسی دوران چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے عملی تجاویز دیں جنہیں نا صرف رد کر دیا گیا بلکہ مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بڑے دعوے کیے کہ وہ کسی سے امداد نہیں مانگیں گی اور اپنے وسائل سے متاثرین کو لاکھوں روپے دیں گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود متاثرین کو ایک روپیہ تک نہیں ملا۔ آخرکار صرف سو ارب روپے کا اعلان کر کے سمجھا گیا کہ شاید یہ نمائشی قدم بحران کو چھپا دے گا، حالانکہ یہ رقم مجموعی متاثرین کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں اور چند ایک خاندانوں کے سوا کسی کو یہ رقم ملی بھی نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کراچی کے واقعے پر گدھ کی طرح جھپٹنے والے پنجاب کے لاکھوں متاثرین پر کیوں خاموش ہیں؟ کیوں میڈیا اور سیاست کے علمبردار پنجاب کی تباہی پر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں؟ یہ خاموشی، یہ بے حسی اور یہ دوغلا پن وہ زخم ہیں جو متاثرین کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔
وقت گزر جائے گا زندگی کسی نہ کسی طرح آگے بڑھے گی۔ مگر پنجاب کے وہ لوگ جنہیں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں نے نظرانداز کیا، وہ میڈم وزیراعلیٰ کی نااہلی، تکبر اور اس بحران میں دکھائی گئی بے حسی کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ پنجاب کا سیلاب محض ایک قدرتی آفت نہیں تھا، بلکہ اس کے بعد ہونے والی حکومتی بے بسی اور بے حسی ایک بڑا انسانی المیہ بن کر سامنے آئی جس پر آج بھی کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔




