پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’مسلم لیگ قائداعظم سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گی اور دونوں جماعتیں اپنے اپنے موقف کے ساتھ اکٹھی چلیں گی۔‘
پیر کے روز لاہور کے زمان پارک میں بین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرویز الہی نے اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط کر کے انہیں دے دی ہے۔ اور وہ جمعے کے روز اسمبلیاں توڑ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’آئین کے مطابق اسمبلیاں توڑے جانے کے 30 دن کے اندر انتخابات ہونے چاہیئں اور سمجھ نہیں آ رہی کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں انتخابات نہیں چاہےگی۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’خدشہ ہے کہ اگر جلد انتخابات نہیں ہوتے تو اکتوبر تک پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔‘
اس موقع پر سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان پہلے ہی ایک سلیکٹڈ ڈیفالٹ کا شکار ہو چکا ہے اور معاشی ادائیگیوں میں اس وقت 10 ارب ڈالر کی کمی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ایل سی نہ کھولنا اور ڈالرز ادائیگیوں کو روکنا اس سلیکٹڈ ڈیفالٹ کی علامتیں ہیں۔‘
اس موقع پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’نئے آرمی چیف کے عہدہ سنبھالنے کے بعد انہیں اسٹیبلشمنٹ نے کوئی پیغام نہیں بھیجا، لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کیوں نئے انتخابات کا انعقاد نہیں چاہے گی۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی حقیقت ہے۔ لیکن ہمیں صرف (طاقت کے ) توازن کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں اور کورونا بحران اور سنڈیوں کے حملے کے دوران انہیں اسٹیبلشمنٹ کا بے پناہ تعاون رہا، تاہم مسئلہ تب درپیش آیا جب انہوں نے کرپٹ افراد کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کی۔ میں احتساب کے معاملے پر ناکام ہو گیا۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ان کے دور کے تین سالوں میں پی ٹی آئی کی خارجہ پالیسی چلتی رہی اور اس پر تمام اداروں کا اتفاق تھا۔‘
چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ وہ انڈیا سے تعلقات معمول پر لانے کی اس وقت تک کوشش کرتے رہے جب تک اس نے کشمیر پر قبضے کا 5 اگست کا اقدام نہیں اٹھایا تھا۔
خیبر پختونخوا میں حالات کی کشیدگی کے متعلق بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اس علاقے میں اب کسی کا کنٹرول نظر نہیں آ رہا اور حکومت بے بس ہو چکی ہے۔‘
’وزیر خارجہ پوری دنیا گھوم چکے ہیں لیکن افغانستان نہیں گئے۔ انہیں افغانستان جانا چاہیے اور اس معاملے پر تمام فریقین کو لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔‘
عمران خان نے کہا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نہایت تشویش ناک ہیں۔ اگر صورتحال خراب ہوئی تو پاکستان مغربی سرحد پر ایک اور تنازع کی تاب نہیں لا سکتا۔‘
’یہ نہایت سنجیدہ صورتحال ہے، فریقین حالات بے قابو ہونے سے پہلے اقدامات اٹھائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’احتساب کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ نیب نے کمزور کا تعاقب اور طاقتور کے ساتھ لین دین کا سلسلہ شروع کیا۔ بدقسمتی سے نیب کو جنرل باجوہ کنٹرول کرتے تھے۔‘
’میں کہتا تھا کہ زرداری و نواز شریف جیسے بڑے مجرموں کا احتساب کیا جائے۔ ابتداء میں جنرل باجوہ نے انکار نہیں کیا مگر بالآخر ہمیں کہا کہ معیشت پر دھیان دیں اور احتساب کے بارے میں فکر مند ہونا چھوڑ دیں۔‘
ان کے مطابق ’جنرل باجوہ نے اصل میں ہمیں ان لوگوں کو این آر او دینے کا کہا۔‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کیا کوئی اس سے بڑھ کر ملک کو نقصان پہنچا سکتا تھا جتنا جنرل باجوہ نے پہنچایا ہے۔ میرے لیے یہ تصور محال ہے کہ کوئی ملک کو اتنا نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے۔‘