بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر پر پاکستانی بینکوں کے من مانے ریٹس کیوں؟
و بیرون ملک مقیم پاکستانی یا پاکستانی فری لانسر ڈالر کے بڑھتے ہوئے ریٹ سے مستفید ہوتے ہیں، انہیں بھی بینکوں کی جانب سے انٹربینک سے بھی کم ریٹ ملنے پر شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لاہور پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی):پاکستان میں ڈالر ریٹ بڑھنے سے زیادہ تر افراد تو پریشان ہوتے ہیں مگر جو بیرون ملک مقیم پاکستانی یا پاکستانی فری لانسر ڈالر کے بڑھتے ہوئے ریٹ سے مستفید ہوتے ہیں، انہیں بھی بینکوں کی جانب سے انٹربینک سے بھی کم ریٹ ملنے پر شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم اوپس احمد فری لانسنگ کرتے ہیں جنہیں بیرون ملک سے ڈالر میں سیلری ادا کی جاتی ہے۔
جمعرات کی شام جب سٹیٹ بینک کے مطابق ڈالر کا انٹربینک ریٹ 255 روپے تھا تو انہیں ایک کمپنی کی جانب سے بھیجی گئی رقم 225 روپے کے حساب سے موصول ہوئی جس پر وہ حیران رہ گئے۔
’میں نے اپنے بینک کی ہیلپ لائن سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی برانچ میں جانے کو کہا، برانچ میں پہنچا تو انہوں نے کہا کہ رقم دو تین بینکوں سے ٹرانسفر ہو کر ان تک پہنچی ہے، اس لیے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب بینکوں کو ڈالر میں کی گئی خریداری کی ادائیگی کرنی ہو تو وہ اسے اوپن مارکیٹ ریٹ سے بھی زائد کے حساب سے چارج کرتے ہیں تاہم جب بیرون ملک سے رقم صارفین کے اکاؤنٹ میں آئے تو وہ انٹربینک سے بھی کئی روپے کم ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے سٹیٹ بینک سے کمرشل بینکوں کی جانب سے ڈالر کا کم ریٹ ادا کرنے پر ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔
اویس احمد کا کہنا تھا کہ ہمیں حکومت کوئی سہولت تو دیتی نہیں مگر فائیور پر کوئی پانچ ڈالر کا بھی کام ملے تو پہلے تو ایک ڈالر فائیور کی فیس کٹ جاتی ہے، پھر پے منٹ سروس کی فیس بھی کٹتی ہے اور اگر بینک کے ذریعے ادائیگی ہو تو بینک ڈالر کا ریٹ انٹربینک ریٹ کے مقابلے میں کافی کم دیتا ہے۔
اویس کے مطابق جب بیرون ملک سے گوگل یا کسی کمپنی سے کوئی سبسکرپشن لیتے ہیں تو بینک ان سے نہ صرف انٹربینک ریٹ سے 20 روپے تک زیادہ چارج کرتے ہیں بلکہ کئی طرح کے ٹیکس بھی لیتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک بڑے کمرشل بینک کے اہلکار سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بیرون ملک سے ادائیگیاں کئی بینک بدل کر پاکستان پہنچتی ہیں جس کی وجہ سے پراسیسنگ کا ٹائم بھی بڑھ جاتا ہے اور ریٹ کا بھی فرق ہوتا ہے۔