
ایران پر اسرائیلی حملے: اعلیٰ فوجی قیادت، جوہری ماہرین ہلاک
اسرائیلی حملے میں چھ ایرانی جوہری سائنسدان ہلاک، مقامی میڈیا
وقت اشاعت 2 گھنٹے پہلےآخری اپ ڈیٹ 5 منٹ پہلے
آپ کو یہ جاننا چاہیے
- آئی اے ای اے کے سربراہ کی اسرائیلی حملوں پر ’گہری تشویش‘
- ایران پر حملہ ’فیصلہ کن موڑ‘ تھا، اسرائیلی وزیر دفاع
- اردن نے ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے
- اسرائیلی حملے میں چھ ایرانی جوہری سائنسدان ہلاک، مقامی میڈیا
- اسرائیل ایرانی ڈرون حملوں کے لیے تیار
- برطانیہ کی فریقین کو تحمل کی اپیل، سفارت کاری کی طرف واپسی پر زور
- نطنز جوہری تنصیب پر حملے کے بعد تابکاری کا اخراج نہیں ہوا، آئی اے ای اے
آئی اے ای اے کے سربراہ کی اسرائیلی حملوں پر ’گہری تشویش‘

اقوامِ متحدہ کی جوہری توانائی سے متعلق نگران ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافائل گروسی نے ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایک بیان میں گروسی نے کہا، ’’یہ پیش رفت انتہائی تشویشناک ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جوہری تنصیبات پر کبھی حملہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے ایرانی حکام کی جانب سےمہیا کی گئی اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’نطنزمیں یورینیم کی افزودگی کا مرکز متاثر ہوا ہے۔‘‘ تاہم ان کے بقول، ’’تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا۔‘‘
رافائل گروسی نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی کوئی بھی عسکری کارروائی جو جوہری تنصیبات کی حفاظت کو خطرے میں ڈالے، ایران، خطے اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے تمام فریقوں سے ’’حد درجہ ضبط اور تحمل‘‘ کی اپیل کی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے ٹیلیفون پر حملے سے متعلق آگاہ کیا، جرمن چانسلر

جرمنی کے چانسلر فریڈرش میرس نے جمعے کی صبح تصدیق کی کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے انہیں ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائی کے بارے میں ٹیلیفون پر آگاہ کیا تھا۔ جرمن جریدے ڈئر اشپیگل کے مطابق یہ کال حملے سے قبل کی گئی، تاہم سرکاری طور پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے مابین یہ گفتگو ایران پر اسرائیلی حملوں سے پہلے ہوئی یا بعد میں۔
چانسلر میرس نے ایک بیان میں کہا، ’’جرمن حکومت برسوں سے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر تشویش ظاہر کرتی رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول تہران کا جوہری پروگرام ’’پورے خطے کے لیے، اور خاص طور پر اسرائیل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔‘‘ انہوں نے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو مزید کشیدگی پیدا کر سکتے یا خطے کو غیر مستحکم بنا سکتے ہیں۔ فریڈرش میرس نے کہا کہ جرمنی تمام سفارتی ذرائع کے ساتھ ثالثی کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمن حکومت کی سکیورٹی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے اور یہ کہ ان کی حکومت برطانیہ، فرانس اور امریکہ سمیت اپنے شراکت داروں سے قریبی رابطے میں ہے۔ جرمن چانسلر کا مزید کہنا تھا، ’’ہدف اب بھی یہی ہونا چاہیے کہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔‘‘
حملہ ’فیصلہ کن موڑ‘ تھا، اسرائیلی وزیر دفاع

اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایران پر کیے گئے حملوں کے بعد کہا کہ یہ ’’ریاست اسرائیل اور یہودی قوم کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن لمحہ تھا۔‘‘ انہوں نے ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا، ’’آپریشن کا مقصد ایران کے اسرائیل پر وجودی خطرے کو ختم کرنا ہے۔‘‘ کاٹز کے مطابق حملے کا وقت ’’ایک ایسا موڑ تھا، جسے اگر ہم گنوا دیتے، تو ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ممکن نہ رہتا، جو ہماری بقا کو خطرے میں ڈال دیتے۔‘‘
اردن نے ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے

اردن کی فوج نے کہا ہے کہ جمعے کی صبح اس کے فضائی دفاعی نظام نے ان متعدد میزائلوں اور ڈرونز کو مار گرایا، جو اردنی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے۔ ایک فوجی بیان کے مطابق، ’’شاہی فضائیہ اور فضائی دفاعی نظام نے ان میزائلوں اور ڈرونز کو کامیابی سے روک لیا، جو اردنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔‘‘ اس سے قبل دارالحکومت عمان میں فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے تھے اور حکومت نے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی تھی۔ ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے میں 100 سے زائد ڈرونز فائر کیے ہیں۔ ایران سے اسرائیل تک پہنچنے کے لیے عام طور پر ایرانی ڈرونز یا میزائل عراق، شام یا اردن کی فضائی حدود استعمال کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اردن نے اس سے قبل بھی اپریل اور اکتوبر 2024 میں ایران کے اسرائیل پر حملے کے دوران ایرانی حملوں کو روکنے میں کردار ادا کیا تھا، جو دونوں مرتبہ اسرائیلی حملوں کے ردعمل میں کیے گئے تھے۔
اسرائیلی حملے میں چھ ایرانی جوہری سائنسدان ہلاک، مقامی میڈیا

ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق جمعے کی صبح ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم چھ ایرانی جوہری سائنسدان بھی ہلاک ہو گئے۔ سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ہلاک ہونے والے سائنسدانوں میں عبد الحمید منوچہر، احمد رضا ذوالفقاری، امیرحسین فقہی، مطلب علیزاده، محمد مہدی تہرانچی اور فریدون عباسی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تہرانچی ایران کی آزاد اسلامی یونیورسٹی کے صدر تھے، جبکہ فریدون عباسی ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سابق سربراہ تھے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے حملے خاص طور پر ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے تاکہ تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے، جنہیں اسرائیل اپنی بقا کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
اسرائیل ایرانی ڈرون حملوں کے لیے تیار

اسرائیلی فوج کے مطابق ایران نے اسرائیل کی سمت ایک سو ڈرونز لانچ کیے ہیں، جس کے بعد اسرائیلی شہریوں کو اپنے گھروں یا قریبی عوامی پناہ گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون ایران سے لانچ کیے جانے کے بعد تقریباً سات گھنٹے میں اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہوں گے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سائرن بجیں، شہریوں کو فوراً پناہ گاہوں میں چلے جانا چاہیے اور وہ وہاں سے تب تک نہ نکلیں، جب تک کہ نئی ہدایات نہ ملیں۔ یہ ہدایت قبل ازیں غزہ، یمن یا لبنان سے داغے گئے راکٹ حملوں کی صورت سے مختلف ہے، جن میں شہریوں کو صرف 10 منٹ پناہ لینے کی ہدایت دی جاتی تھی۔
اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی ہوم فرنٹ کمانڈ کے مطابق، ’’ہم ایک بڑے خطرے کے لیے تیار ہیں، جو شدت میں مختلف ہے۔ اسی لیے اگلے چند گھنٹوں کو اس انداز سے گزارنے کی منصوبہ بندی کریں کہ سائرن بجتے ہی فوری طور پر پناہ گاہوں تک پہنچا جا سکے۔‘‘
برطانیہ کی فریقین کو تحمل کی اپیل، سفارت کاری کی طرف واپسی پر زور

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے اسرائیل اور ایران دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’’کشیدگی کم کریں اور فوری طور پر پیچھے ہٹیں۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا، ’’مزید بگاڑ خطے میں کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ’’استحکام‘‘ اولین ترجیح ہونا چاہیے اور برطانیہ اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کشیدگی کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان کے بقول، ’’یہ وقت تحمل، سکون اور سفارتی راستہ اپنانے کا ہے۔‘‘
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے صورت حال کو ’’خطرناک لمحہ‘‘قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر کشیدگی مزید بڑھی تو یہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ’’سنگین خطرہ‘‘ ہو گا۔
نطنز جوہری تنصیب پر حملے کے بعد تابکاری کا اخراج نہیں ہوا، آئی اے ای اے

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے تصدیق کی ہے کہ ایران کی نطنز جوہری تنصیب گاہ بھی اسرائیلی حملوں میں نشانہ بنی، تاہم وہاں سے تابکاری کا کوئی اخراج نہیں ہوا۔ اس بین الاقوامی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ ایرانی حکام نے اطلاع دی ہے کہ بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ متاثر نہیں ہوا، اور نطنز میں تابکاری کی سطح معمول کے مطابق ہے۔ گروسی کے مطابق، ’’آئی اے ای اے ایران میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے، ہم ایرانی حکام اور اپنے معائنہ کاروں کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔‘‘
یہ بیان اسرائیل کی جانب سے جمعہ 13 جون کو علی الصبح ایران بھر میں کیے گئے فضائی حملوں کے بعد سامنے آیا ہے، جن میں فوجی اور جوہری نوعیت کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔