2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے بعد نواز شریف کام کرتے رہے کہ کس طرح اتفاق رائے پیدا کیا جائے، عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کو مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا، اس وقت عمران خان نے طالبان سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکارکیا تھا۔
عرفان صدیقی نے کہا ہم نےنیک نیتی سےمذاکرات شروع کیے، امید تھی کہ حل نکل آئےگا لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی، طالبان شوریٰ خود ہمیں کہتی تھی کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ان کی کمانڈ سے باہر ہیں، ہم نے طالبان شوریٰ سے کہا کہ پھر ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں، مذمت کریں وہ یہ بھی نہیں کرتے تھے ،اس طرح مذاکرات ہچکولے کھاتے رہتے تھے اور بات آگے بڑھ نہیں پاتی تھی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان سے حکومتی کمیٹی میں اپنا نمائندہ دینے کا کہا تو انہوں نے رستم شاہ مہمند کواپنا نمائندہ مقررکیا۔ عرفان صدیقی نے بتایا کہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں عمران خان سمیت تمام پارٹیوں کے سربراہ شریک تھے جس میں اتفاق رائے ہوا کہ ہمیں مار دھاڑ نہیں کرنی، آپریشن نہیں کرنا، اس وقت کے آرمی چیف اور عسکری قیادت نے شرکاء کو بریفنگ دی تھی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ عمران خان کا بڑا زور دار مؤقف تھا کہ امن اور بات چیت کے ذریعے معاملہ آگے بڑھانا ہے، بہت سےلوگ کہتے ہیں کہ میاں صاحب نے جو تقریر کی اتفاق رائے پیدا کیا اور مذاکراتی کمیٹیاں بنائیں، توقع تھی کہ نوازشریف شاید آپریشن کا اعلان کرنے والے ہیں جبکہ میاں صاحب کا اعلان اس کےبرعکس تھا۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان میں سنجیدگی نظر نہیں آئی کیونکہ جہاں سنجیدگی ہوتی ہے وہاں شرطیں نہیں لگائی جاتیں، سنجیدگی ہو تو دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کی جاتی ہے تاکہ بات آگے بڑھے۔
خیال رہے کہ موجودہ حکومت بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کررہی ہے اور گزشتہ دنوں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان سیزفائر پر اتفاق ہوا ہے۔