مشرق وسطیٰ

ایوسٹان انجیکشن سے متاثرہ مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے ویب پورٹل بنادیا گیا۔

مریضوں کے علاج کے لئے راولپنڈی، لاہور اور ملتان کے ہسپتالوں میں خصوصی بستر مختص۔ وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کی طرف سے تشکیل دی جانے والی 10 رکنی کمیٹی نے کام شروع کر دیا۔ صوبائی وزرا صحت ڈاکٹر جمال ناصر اور ڈاکٹر جاوید اکرم کی مشترکہ پریس کانفرنس

لاہور پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی):‌ صوبائی وزرا صحت ڈاکٹر جمال ناصر اور ڈاکٹر جاوید اکرم نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایوسٹان انجیکشن سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کا تعین اور ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے محکمہ پرائمری ہیلتھ کیئر میں ویب پورٹل بنادیا گیا ہے۔ آنکھوں کے علاج کے لئے انجیکشن استعمال کرنے والے مریض اپنی معلومات فراہم کریں۔ اس وقت تک صوبے میں اس انجیکشن سے متاثرہ 68 مریض سامنے آئے ہیں جن کے علاج کے لئے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی، میو ہسپتال لاہور اور نشتر ہسپتال ملتان میں خصوصی بستر مختص کر دیئے گئے ہیں۔
صوبائی وزرا نے بتایا کہ وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کی طرف سے ایوسٹان انجیکشن سے پیدا شدہ صورتحال کے بارے میں تشکیل دی جانے والی 10 رکنی کمیٹی نے کام شروع کر دیا ہے۔یہ کمیٹی انجیکشن لگانے کے سلسلے میں اب تک جاری کلینیکل پریکٹسز کا تجزیہ کر کے مختلف سطحوں پر پائی جانے والی خامیوں اور کمزوریوں کا تعین کرے گی اور مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک کرنے کے لیے جامع لائحہ عمل تیار کرے گی۔
وزیر پرائمری ہیلتھ ڈاکٹر جمال ناصر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آنکھوں کے علاج کے لئے اس ٹیکے کا استعمال دو ہفتے کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔ یہ ٹیکہ بنیادی طور پر آنتوں کے کینسر کے علاج کے لئے ہے اور شوگر کے مریضوں کی آنکھوں کے علاج کے لئے اس کا استعمال آف لیبل یوز کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ٹیکہ نہ تو جعلی ہے اور نہ ہی مقامی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ان مریضوں کو اس ٹیکے کا ری ایکشن بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ کینسر کے مریضوں کے لئے یہ ٹیکہ 100 ملی گرام کی پیکنگ میں فروخت کیا جاتا ہے۔شوگر کے مریضوں کو اس کی 1.2 ملی گرام ڈوز دی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لئے بعض افراد اسے چھوٹی چھوٹی سرنجوں میں بھر کر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے لئے درجہ حرارت دو سے اٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہونا ضروری ہے۔ پیکنگ کھلنے کے بعد اسے چھ گھنٹے کے اندر مریض کو لگاناضروری ہے۔
تاہم درجہ حرارت میں کمی بیشی کی وجہ سے اس کی کیمیکل کمپوزیشن خراب ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال ٹیکے کی ٹرانسپورٹیشن کے دوران ٹمپریچر کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہونے کا امکان ہے۔
ڈاکٹر جمال ناصر نے بتایا کہ غیر قانونی طور پر یہ ٹیکہ چھوٹی سرنجوں میں فروخت کرنے والے ملزموں کی گرفتاری کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ہیلتھ کیئر کمیشن کو اس کام میں ملوث ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا پتہ چلانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیکے کے نقصانات سامنے آنے پر پنجاب کے اٹھ شہروں میں 11 ڈرگ انسپکٹروں کو معطل کر کے ان کے خلاف کاروائی کا حکم دے دیا گیا ہے۔
وزیر سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جاوید اکرم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعلی کی تشکیل دی گئی کمیٹی کو مزید فعال بنانے کے لیے اس میں مائیکرو بائیالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر سدرہ، آفتھمالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر معین اور فرانزک میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر اللہ رکھا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کمیٹی نے ایک انسپیکشن ٹیم تشکیل دی ہے جو ان جگہوں کا معائنہ کرے گی جہاں یہ ٹیکہ چھوٹی سرنجوں میں پیک کیا جاتا تھا اور اس بات کا تعین کرے گی کہ کیا وہ جگہ موزوں تھیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ اس انجیکشن کی لاٹ کی سویٹزر لینڈ سے روانگی، شپمنٹ، آف لوڈنگ اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ کے دوران ٹمپریچر کا بھی ریکارڈ طلب کیا جائے گا۔
ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ اس انجیکشن کا انکھوں کے لیے استعمال کے دوران گڈ کلینیکل پریکٹسز کا خیال نہیں رکھا گیا۔اس کے لیے مقامی زبان میں مریض کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے ذمہ دار افراد کے لیے زیرو ٹالرنس ہوگی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button