مشرق وسطیٰ

کورونا وائرس: برطانیہ کے شیراز مہر نے کورونا کا مقابلہ کیسے کیا؟

[ad_1]

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

(دنیا کے کئی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی کووڈ-19 سے متاثرہ افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔یہاں کے طبی نظام پر بھی اس کی وجہ سے کافی دباؤ ہے، جس وجہ سے زیادہ تر ایسے لوگوں کو جن میں زیادہ شدید علامات ظاہر نہیں ہو رہیں گھر میں ہی خود کو علیحدہ کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقی معنوں میں اس کا مطلب آخر کیا ہے؟)

شیراز مہر لندن میں مقیم ایک مورخ ہیں۔ وہ کنگز کالج لندن کے آئی سی ایس آر ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔

ان کی عمر 38 برس ہے اور انھیں پہلے سے ایسی کوئی تکلیف نہیں جس کی وجہ سے انھیں کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔ 27 مارچ کو کیے گئے اپنے ٹویٹر میں انھوں نے کورونا وائرس کے ساتھ اپنے تجربے کی وضاحت کی۔

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کووڈ 19 کے دوران کیا گزری؟ تین مریضوں کی کہانیاں

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

شیراز کے مطابق انھوں نے شروع سے ہی اس وبا کے خطرے کو سنجیدگی سے لیا تھا اور پہلے ہی خود کو اپنے گھر میں تنہا کر لیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ اگر انھیں کورونا وائرس ہو بھی گیا تو وہ جوان اور صحتمند ہیں اور انھیں زیادہ مسئلہ نہیں ہوگا۔

انھیں دو ہفتے پہلے ہلکا بخار ہوا لیکن جلد ہی وہ صحت یاب بھی ہو گئے۔ انھیں لگا کہ اگر یہ کورونا وائرس تھا تو وہ سستے میں چھوٹ گئے لیکن پھر اچانک ان کے پھیپھڑے جواب دینے لگے۔

’پندرہ سولہ مارچ کے قریب مجھے میرا سینا تنگ ہوتا محسوس ہونے لگا اور پھر خشک کھانسی شروع ہو گئی۔ ایسی کھانسی مجھے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میرے پھیپھڑوں کے اندر کچھ پھنسا ہے اور آپ کا جسم کھانس کر اسے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے،‘

’لیکن ظاہر ہے نکالنے کے لیے کچھ ہے نہیں۔‘

’بہت ہی تکلیف دہ کھانسی جس پر آپ کا کوئی اختیار نہیں۔ ایک بار کھانسی شروع ہو جائے تو لگتا ہے کہ کبھی نہیں رکے گی۔‘

لیکن جب ان کی کھانسی بالآخر رکی تو ایک نئی علامت نے اس کی جگہ لے لی: انھیں سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی۔

’مجھ سے سانس نہیں لی جا رہی تھی، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میرا سینا جکڑا ہوا ہو۔ تین چار گھنٹوں تک میں سانس لینے کی تگ و دو میں رہا۔

یہ بہت ہی برا وقت تھا۔

میں نے اپنی علامات کی لسٹ بنا کر اپنے کچھ ڈاکٹر دوستوں کو بھیجی۔ سب متفق تھے کہ یہ کورونا وائرس کی علامات تھیں۔

اگلے دو دن تک میری حالت کافی خراب تھی اور مجھے سانس لینے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔ میں اب بھی گھر پر ہی تھا۔‘

اس کے بعد شیراز کو لگا کہ ان کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس اس وجہ سے بھی کافی ظالم ہے کہ اس میں طبیعت بتدریج بہتر نہیں ہوتی۔

’ہفتے کی رات کو میری طبیعت واضح طور پر پھر خراب ہونے لگی۔ میرے پاس بلڈ پریشر کی مشین ہے، میں نے اپنا پریشر چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت میرا بلڈ پریشر بہت زیادہ تھا۔ میں بہت ڈر گیا۔ پھر اپنے ڈاکٹر دوستوں کو فون کیا جن کا مشورہ تھا کہ میں 999 کو فون کروں۔ یہاں کا طبی نظام کس قدر دباؤ میں ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مجھے کسی سے بات کرنے کے لیے 15 منٹ سے زیادہ انتظار کرنا پڑا۔‘

’میں نے انھیں اپنے بلڈپریشر اور کورونا وائرس کی علامات کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے سن کر فیصلہ کیا کہ وہ میری مدد کو نہیں آ سکتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ این ایچ ایس بہت ہی مشکل حالات میں بہت اچھا کام کر رہا ہے مگر مریضوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اس وقت شاید ان کی مدد نہ کر سکیں۔

’میں نے پھر اپنے ڈاکٹر دوستوں کو فون کیا اور خود ہی اپنا بلڈ پریشر کم کرنے کی کوشش کی۔ میں اگلے 48 گھنٹوں تک بستر میں رہا اور اس کے بعد میرا بلڈ پریشر تھوڑا بہتر ہونا شروع ہوا۔‘

اس کے بعد بھی ان کی طبیعت پوری طرح بہتر نہیں ہوئی۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

’کھانسی بہتر ہوئی، سینے میں جو جکڑن تھی وہ بہتر ہوئی، لیکن اب پیٹ اور سر میں شدید درد شروع ہو گیا۔ اور اس دوران ایسا لگا کہ جسم جیسے بے جان ہو گیا ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ کورونا وائرس بظاہر مختلف لوگوں میں بالکل مختلف علامات اور سمت اختیار کرتا ہے۔

کچھ لوگوں کو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی اور کچھ کے لیے اس سے گزرنا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ شروع میں اس بات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ آگے کیا ہوگا۔

’یہ ایک انتہائی عجیب بیماری ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں خود کو اس قدر بیمار کبھی محسوس نہیں کیا۔ بعض دن میں واقعی خوفزدہ تھا کہ اگر میری حالت بہتر نہیں ہوئی تو کیا ہوگا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس بیماری نے میری زندگی کے کئی دن مجھ سے چھین لیے۔ بہت سے لوگوں سے اس وائرس نے ان کی زندگی چھین لی۔ یہ وائرس ہر طرف پھیل رہا ہے اور آپ اسے روک سکتے ہیں اور اس کے لیے آپ کو کچھ خاص کرنا بھی نہیں۔ ہاتھ دھوئیں، گھر پر رہیں۔

(شیراز مہر نے یہ ٹویٹ 27 مارچ کو کیے تھے۔ ان کا یہ ٹویٹ تھریڈ اب تک تیس ہزار سے زیادہ بار ریٹویٹ ہو چکا ہے۔ اس کے بعد 28 مارچ کے کچھ ٹویٹس میں انھوں نے واضح کیا کہ وہ اب بھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہوئے ہیں لیکن انھیں خوشی ہے کہ ان کے تجربے سے لوگوں کو اس بیماری کی سنجیدگی کا احساس ہو رہا ہے)

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button