جنرل

کورونا وائرس: کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات ملتوی کر سکتے ہیں؟

[ad_1]

امریکہ کے صدارتی انتخاباتتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

اگر ایک جانب کورونا وائرس سے پھیلنے والی وبا نے امریکی معیشت کو سست کر دیا ہے اور اسے روک دیا ہے تو دوسری طرف یہ قومی انتخابات کے سال میں امریکہ کے جمہوری عمل کے لیے خطرہ بھی بنا ہوا ہے۔

پرائمری انتخابات یا تو تاخیر کا شکار ہیں یا ان میں خلل پڑ گیا ہے کیونکہ پولنگ سٹیشن بند ہیں اور غیر حاضری میں ووٹ ڈالنے کے عمل پر شک و شبہات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

سیاست دان انتخابی عمل سے متعلق شدید تنازعے کا شکار ہیں اور اس پر عدالتوں میں جنگ جاری ہے۔

نومبر میں امریکی ووٹرز نئے صدر اور کانگریس کے بہت سے امیدواروں کے ساتھ ریاستی حکومت کے لیے ہزاروں امیدواروں کو منتخب کرنے والے ہیں۔

لیکن یہ انتخابات کیسے ہوں گے اور کیا یہ وقت مقررہ پر ہو بھی پائیں گے یا نہیں یہ بات اپنے آپ میں موضوع بحث ہے۔

بعض اہم سوالات کے جوابات یہاں دیے جا رہے ہیں:

کورونا وائرس: آپ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

امریکہ میں سب اچھے کی خبر تھی پھر سب بدل گیا؟

کورونا کے خلاف جنگ: مغرب ایشیا سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے

کیا کورونا وائرس چین اور امریکہ میں لڑائی کی وجہ بن سکتا ہے؟

کیا صدر ٹرمپ انتخابات ملتوی کر دیں گے؟

فی الحال 15 ریاستوں نے صدارتی پرائمری کے انتخابات میں تاخیر کی ہے اور ان میں سے زیادہ تر اسے جون کے اختتام تک لے جانے کا خیال رکھتے ہیں۔

اس سے یہ اہم سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا نومبر میں ہونے والا صدارتی انتخاب اس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو جائے گا۔

سنہ 1845 کے ایک قانون کے مطابق امریکہ کا صدارتی انتخاب ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے سوموار کے بعد آنے والے منگل کو منعقد کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ رواں سال سنہ 2020 میں تین نومبر کی تاریخ انتخابات کی تاریخ قرار پاتی ہے۔

اس قانون میں تبدیلی کے لیے کانگریس کو نیا قانون بنانا ہو گا اور اسے ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت والے ایوان نمائندگان اور ریپبلکن کے اکثریت والے سینیٹ یعنی دونوں ایوانوں میں اکثریت سے منظوری حاصل کرنا ہو گی۔

اس کے علاوہ اگر ووٹنگ کے دن میں تبدیلی کی جاتی ہے تو بھی امریکی آئین میں کسی صدر کی انتظامیہ کی مدت صرف چار سال تک ہی ہو سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کہا جائے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت کسی بھی صورت میں 20 جنوری سنہ 2021 کی دوپہر کو ختم ہو جائے گی۔

اگر وہ دوبارہ منتخب ہوتے ہیں تو انھیں مزید چار سال کی مدت مل جائے گی۔ اگر وہ ہار جاتے ہیں تو ان کی جگہ ڈیموکریٹ کے جو بائیڈن صدر بنیں گے۔ لیکن گھڑی کی سوئی چل رہی ہے اور ووٹ میں تاخیر اسے نہیں روک سکتی۔

اگر انتخابات میں تاخیر ہوتی ہے تو کیا ہوگا؟

اگر طے شدہ افتتاحی دن سے پہلے انتخابات منعقد نہیں ہوتے تو صدارتی جانشینی کا سلسلہ چل نکلے گا۔ قطار میں دوسرے نمبر پر نائب صدر مائک پینس ہیں لیکن چونکہ دفتر میں ان کی مدت بھی اسی دن ختم ہو رہی ہے جس دن صدر کی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

ان کے بعد قطار میں ایوان کی سپیکر ڈیموکریٹک پارٹی کی نینسی پلوسی ہیں لیکن ان کا دوسرا دور دسمبر میں ختم ہو رہا ہے۔

اگر قیامت جیسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو پھر صدر کے لیے اہل سب سے سینیئر امیدوار آیوا کے 86 سالہ ریپبلکن امیدوار چک گریسلی ہیں جو کہ سینیٹ کے عارضی صدر ہیں۔ اس صورت میں یہ بات قابل غور ہے کہ ریپبلیکن سینیٹ میں اپنی 100 سیٹوں میں سے صدارتی مدت کے خاتمے پر ایک تہائی سیٹیں کھو دیں گی تو کیا ان کی اکثریت رہے گی۔

یہ صورتحال پوری طرح سے کسی حقیقی سیاست کے بجائے سیاسی سسپینس ناول کے دائر میں آتی ہے۔

لیکن کیا وائرس انتخابات میں خلل انداز ہو سکتا ہے؟

صدارتی انتخابات کی تاریخ میں کسی صریح تبدیلی غیر متوقع ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتخابی عمل کو خلل کا خطرہ نہیں ہے۔

انتخابی قانون کے ماہر اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ارون کے ریچرڈ ایل ہیسن کے مطابق ٹرمپ یا ریاستی حکومتیں اپنے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ووٹنگ کی جگہ پر پہنچ کر ووٹ ڈالنے کے عمل کو بہت حد تک کم کر سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر حال میں ہی میں وسکانسن کی پرائمری میں وائرس کی زد میں آنے کے خدشے کے ساتھ پولنگ کارکن یا رضاکاروں کی کمی اور انتخابی سامان کی کمی کے پیش نظر ریاست کے سب سے بڑے شہر ملواکی کے 180 پولنگ سٹیشن میں سے 175 کو بند رکھنا پڑا تھا۔

اگر سیاسی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کیے گئے تو ہو سکتا ہے کہ مخالف پارٹی کے مضبوط گڑھ کو نشانہ بنایا جا سکے اور اس کی وجہ سے انتخابات کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔

کیا ریاستیں نتائج کو چیلنج کر سکتی ہیں؟

ہیسن ایک اور غیر معمولی صورتحال پیش کرتے ہیں جو کہ بہت حد تک غیر متوقع ہے۔ وائرس کے متعلق خدشات کے پیش نظر قانون ساز یہ طے کرنے کا اختیار واپس لے سکتے ہیں کہ کون سے امیدوار عام انتخابات میں ان کی ریاست میں جیت حاصل کریں گے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

یہ آئینی طور پر لازمی نہیں کہ کوئی ریاست اس صدارتی امیدوار کی حمایت کرے جسے پاپولر ووٹ میں جیت حاصل ہوتی ہے یا پھر کسی ریاست کا صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ کرنا لازمی نہیں ہے۔

یہ سب الیکٹورل کالج پر منحصر ہے۔ یہ وہ فرسودہ امریکی ادارہ ہے جس میں ہر ایک ریاست کے پاس ‘الیکٹرز’ یعنی منتخب کرنے والے ہوتے ہیں جو صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔ عام حالات میں منتخب کرنے والے (تقریبا ہمیشہ) انھی کی حمایت کرتے ہیں جنھیں ان کی ریاست میں عوام کا پاپولر ووٹ ملتا ہے۔

لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ اسی پر عمل پیرا ہوں۔ مثال کے طور پر سنہ 1800 کے انتخابات میں بہت سی ریاستوں کے ایوان نمائندگان نے اپنے منتخب کرنے والوں سے کہا کہ انھیں کس طرح ووٹ کرنا ہے اور پاپولر ووٹ کو مسترد کر دینا ہے۔

ہیسن کا کہنا ہے کہ اگر آج ریاست اس قسم کے ‘سخت’ اقدام کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں شاید سڑکوں پر بڑے مظاہرے ہوں گے۔ اور وہ بھی اس صورت میں جب قرنطینہ اور سماجی دوری کے فرمان کے دوران عام مظاہرے کی اجازت دی جاتی ہے۔

کیا قانونی طور پر اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

وسکانسن کی پرائمری کا حالیہ تجربہ انتخابی عمل میں خلل کی بدشگون تنبیہ ہو سکتا ہے۔ اور یہ صرف اس لیے نہیں کہ ان-پرسن ووٹگ کی محدود مقامات پر سہولت کی وجہ سے لمبی قطاریں ہوں گی بلکہ حفاظت فراہم کرنے والے لباس میں نیشنل گارڈز کے فوجیوں اور رضاکاروں کی بھی موجودگی ہو گی۔

پرائمری کے لیے ووٹ ڈالنے کے دن سے پہلے ڈیموکریٹس کے گورنر ٹونی ایورس اور ریاستی ایوان کو کنٹرول کرنے والے ریپبلیکنز بڑی قانونی جنگ میں الجھے رہے جس کا فیصلہ بالآخر امریکہ کی سپریم کورٹ کو کرنا پڑا کہ آیا گورنر کو ووٹنگ کو جون تک موخر کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے یا پھر جو حاضر نہیں ہو سکے ہیں ان کے لیے ووٹ ڈالنے کی تاریخ میں توسیع کی جاسکتی ہے۔

مارچ میں اوہایو کے ریپبلکن گورنر مائک ڈیوائن نے اپنی ریاست میں پرائمری کے انتخابات کو موخر کرنے کے لیے اسی طرح کی قانونی لڑائی لڑی۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

بدھ کے روز ریاست ٹیکسس کے ایک وفاقی جج نے ایک حکم جاری کیا جس میں کورونا وائرس کے خدشے کو نومبر کے انتخبات میں غیر حاضری والے بیلٹ کی درخواست کا جواز قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ملک میں خط کے ذریعے ووٹ دینے یا پوسٹل بیلٹ کی شرائط بہت سخت ہیں۔

کن تبدیلیوں سے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے؟

پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کرائے گئے حالیہ سروے میں 66 فیصد امریکیوں نے کہا ہے کہ وہ عوامی صحت کو لاحق حالیہ بحران میں پولنگ سٹیشن جا کر ووٹ دینے پر مطمئن ہیں۔

اس قسم کے خدشات نے خط یا میل کے ذریعے ووٹ دینے میں توسیع کے لیے ریاستوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے تاکہ بذات خود پولنگ سٹیشن پر جاکر ووٹ دینے کی صورت میں وائرس کے زد میں آنے کے ممکنہ خطرات سے بچا جا سکے۔

ہر چند کہ ہر ریاست میں دور سے ووٹ کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ موجود ہے لیکن اس کا اہل ہونے کی شرائط ہر جگہ مختلف ہیں۔

ہیسن نے کہا: ‘ہمارا نظام بہت ہی غیر مرتکز ہے۔ ریاستوں کو اپنے حساب سے چیزوں کو کرنے کے لیے بہت ساری چھوٹ حاصل ہے۔’

مغربی امریکہ کی پانچ ریاستوں بشمول واشنگٹن، اوریگون اور کولوریڈو میں انتخابات پوری طرح سے میل-ان-بیلٹ یعنی خط کے ذریعے ڈالے جاتے ہیں۔ کیلیفورنیا کی طرح بعض جگہ جو بھی پوسٹل بیلٹ کی درخواست کرتا ہے اسے پوسٹل بیلٹ کی اجازت فراہم کی جاتی ہے۔

بعض ریاستوں کو پوسٹل ووٹنگ کیوں نہیں بھاتی؟

دوسری جانب 17 ریاستوں میں پوسٹل بیلٹ کے لیے ووٹر کو ٹھوس وجوہات بتانی پڑیں گی کہ آخر وہ بذات خود ووٹنگ بوتھ پر پہنچ کر ووٹ کیوں نہیں دال سکتے تاکہ انھیں غائبانہ طور پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔ ان ریاستوں میں یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ شرائط میں نرمی لائی جائے تاکہ غائبانہ ووٹ کے اختیار کو حاصل کرنا آسان ہو لیکن بعض رہنما اس کے حق میں نہیں ہیں۔

میسوری کے ریپبلکن گورنر مائک پارسن نے منگل کے روز کہا غائبانہ بیلٹ تک رسائی ‘سیاسی مسئلہ’ ہے اور کہا کہ وائرس کے رابطے میں آنے کا خوف اپنے آپ میں غائبانہ بیلٹ کی شرائط کو پوری نہیں کرتا۔

نارتھ کیرولینا اور جارجیا سمیت دوسری بہت سی ریاستوں میں ریپبلکنز نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

کانگریس اس میں دخل دے سکتی ہے اور ریاستون کو یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ قومی انتخابات کے لیے غائبانہ ووٹنگ یا میل کے ذریعے ووٹنگ کی ایک کم سے کم سطح قائم کریں لیکن امریکی کیپیٹول میں دو لخت تقسیم کو دیکھتے ہوئے اس کی امید کم ہی ہے۔

کیا سیاسی جماعتیں انتخابات کی حفاظت پر رضامند ہوں گی؟

نہیں۔ جدید سیاست میں شدید پولرائیزیشن کی صورت میں یہ بہت حیران کن نہیں کہ وبا کے دوران انتخابات کو کس طرح ہونا چاہیے یا اس میں کس طرح کی تبدیلی لائی جانی چاہیے شدید مباحثے کا موجب ہوں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بذات خود میل-ان-وٹنگ کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں فراڈ کی بہت گنجائش ہے۔ انھوں نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ ووٹ دینے کی پابندیوں کو نرم کرنے سے بھی ریپبلکن امیدواروں کو نقصان ہو سکتا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Reuters

انھوں نے فاکس نیوز کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا: ‘ان کے پاس ووٹنگ کے مدارج ہیں، اگر آپ اس پر کبھی رضامند ہو جاتے ہیں تو پھر اس ملک میں کبھی بھی کوئی ریپبلکن منتخب نہیں ہوگا۔’

لیکن میل-ان-ووٹنگ سے کنزرویٹو کو زیادہ نقصان ہوگا پر مخلوط اور منقسم رائے ہے کیونکہ ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکنز اکثر و بیشتر زیادہ تعداد میں غیر حاضر بیلٹ کا استعمال کرتے ہیں۔

کیا امریکی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے؟

کورونا وائرس کا پھیلاؤ امریکی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ ایسے میں جبکہ ٹرمپ اور دوسرے سیاستداں زندگی کو کسی قدر معمول پر لانے کی کوشش کر رہیں لیکن بہت سی ریاستوں نے اپنی پرائمری کے انتخاب کی نئی تاريخ مقرر کی ہے اور اگست میں پارٹی کے کنویشن ہونے ہیں جبکہ اکتوبر میں صدارتی مباحثے ہونے ہیں یا پھر نومبر میں صدارتی امیدوار کے لیے ووٹنگ ہونی ہے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ جون تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

عام حالات میں آنے والے مہینوں میں قومی سیاسی مفاد اور سرگرمیوں کا ڈھول بجنا شروع ہوتا جس کی لے انتخابی دنوں تک تیز تر ہوتی ہوئی بام عروج پر پہنچ جاتی۔ فی الحال ہر چیز پر شکوک و شبہات کے بادل ہیں اور بعض لوگوں کے لیے تو خود امریکی جمہوریت کی بنیادین ہل رہی ہیں۔

‘ایلکشن میلٹ ڈاؤن: ڈرٹی ٹرکس، ڈسٹرسٹ، اینڈ دی تھریٹ ٹو امریکن ڈیموکریسی’ نام سے حال ہی میں ایک کتاب لکھنے والے مصنف ہیسن کا کہنا ہے کہ ‘وائرس کے اثر انداز ہونے سے پہلے ہی میں لوگوں کی جانب سے سنہ 2020 کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کے بارے میں کافی پریشان تھا کیونکہ ہم بہت زیادہ پولرائزڈ ہیں اور غلط معلومات میں الجھے پڑے ہیں۔’

‘وائرس سے اس تشویش میں مزید اضافہ ہوا ہے۔’

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button