مشرق وسطیٰ

مسولینی کے آخری ایام اور دشمنوں کے ہاتھوں موت کی کہانی

[ad_1]

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

75 برس قبل 28 اپریل 1945 کو اطالوی ڈیکٹیٹر بنیتو موسلینی کو ان کی گرل فرینڈ کلاریٹا سمیت گولی مار دی گئی تھی۔

دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں مسولینی نے ایک مشہور بیان دیا تھا ‘اگر میں میدان جنگ سے پیچھے ہٹوں تو مجھے گولی مار دو’۔

مسولینی کا یہ کہنا محض بیان بازی تھا لیکن جب موقع آیا تو ان کے مخالفین نے ان کے بیان کو حرف بہ حرف پورا کر دیا۔

جنگ میں شکشت کے بعد مسولینی اپنی گرل فرینڈ کلیریٹا کے ساتھ شمال میں سوئٹزرلینڈ کی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ڈوگون قصبے کے پاس وہ اپنے مخالفین جنھیں ‘پارٹیزن’ کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کے ہاتھ لگ گئے۔ انھوں نے بغیر کسی مقدمے کے انھیں ان کے 16 ساتھیوں کے ساتھ کومو جھیل کے پاس گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

لاش پر ایک خاتون نے پانچ گولیاں داغیں

29 اپریل سنہ 1945 کی صبح تین بجے ایک پیلے رنگ کا ٹرک میلان شہر کے پیازالے لوریٹو چوک پر رکا اور مسولینی، ان کی گرل فرینڈ اور 16 دیگر افراد کی لاشوں کو چوک کے گیلے پتھروں پر پھینک دیا گیا۔

آٹھ بجتے بجتے اخبار کے ایک خصوصی ایڈیشن اور ایک ریڈیو بلیٹن کے ذریعے یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ ‘ڈوچے’ کو سزائے موت دے دی گئی ہے اور ان کی لاش پیازالے لوریٹو میں پڑی ہے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آٹھ ماہ قبل مسولینی نے اپنے 15 مخالفین کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔

مورخ رے موزلی اپنی کتاب ’دی لاسٹ 600 ڈیز آف ڈوچے‘ میں لکھتے ہیں ’یہ اطلاع ملتے ہی 5000 کے قریب لوگوں کا بے قابو ہجوم وہاں اکٹھا ہو گیا۔ ایک عورت نے مسولینی کی لاش کے سر پر پانچ گولیاں داغیں اور کہا کہ اس نے ان سے اپنے پانچ بچوں کی موت کا بدلہ لے لیا ہے۔ ایک دوسری عورت نے اپنی سکرٹ اٹھائی اور سب کے سامنے بیٹھ کر مسولینی کی بگڑی ہوئی صورت پر پیشاب کیا۔

’ایک دوسری عورت کہیں سے ایک کوڑا لے آئی اور مسولینی کی لاش پر کوڑے برسانے لگیں۔ ایک اور شخص نے مسولینی کے منہ میں ایک مردہ چوہا ڈالنے کی کوشش کی۔ اس دوران وہ مسلسل چیختا رہا کہ ‘اب اس منہ سے تقریر کرو‘۔

مسولینی اور کلیریٹا کی لاشوں کو الٹا لٹکایا گیا

تصویر کے کاپی رائٹ
PA Media

Image caption

اس ہیٹ کو کبھی موسلینی نے پہنا تھا

اس ہولناک منظر کو بیان کرتے ہوئے لوسیانو گیریبالڈی اپنی کتاب ‘مسولینی دی سیکرٹ آف ہز ڈیتھ’ میں لکھتے ہیں:’مشتعل ہجوم کے اندر اتنی نفرت تھی کہ وہ ان تمام 18 لاشوں کے اوپر چڑھ گئے اور انھیں اپنے پاؤں سے کچل دیا۔

اسی وفت ایک لمبے چوڑے شخص نے ‘ڈوچے’ کی لاش کو بغل سے پکڑ کر اوپر اٹھایا تاکہ وہاں موجود لوگ اسے بہتر ڈھنگ سے دیکھ سکیں۔ اس کے بعد بھیڑ سے آواز آنے لگی ‘اور اونچا، اور اونچا! ہم دیکھ نہیں پا رہے ہیں۔‘ یہ سن کر اس شخص نے مسولینی، ان کی گرل فرینڈ کلیریٹا اور چار دیگر افراد کی لاشوں کو ان کے ٹخنوں پر رسی سے باندھ کر زمین سے تقریباً چھ فٹ اوپر الٹا لٹکا دیا۔

جیسے ہی کلیریٹا کے جسم کو الٹا لٹکایا گیا اس کی سکرٹ مڑ کر اس کے منہ پر آگئی۔ اس نے سکرٹ کے نیچے کوئی زیر جامہ نہیں پہنا تھا۔ بھیڑ نے اس حالت میں بھی کلیریٹا کے جسم کی بے حرمتی جاری رکھی۔ پھر ایک شخص نے آگے بڑھ کر کلیریٹا کے سکرٹ کو ٹھیک کر کے اس کے ٹخنے سے باندھ دیا۔

مسولینی کا جسم نیچے گرا

تصویر کے کاپی رائٹ
Reuters

Image caption

موسلینی کا بنکر

مسولینی کی زندگی پر ایک اور کتاب ‘دی باڈی آف ڈوچے’ لکھنے والے مصنف سرجیو لوزاٹو لکھتے ہیں کہ ‘مسولینی کا پورا چہرہ خون آلود تھا اور اس کا منہ کھلا ہوا تھا جبکہ کلیریٹا کی آنکھیں خلا میں تک رہی تھیں۔

پھر فاشسٹ پارٹی کے ایک سابق سکریٹری اکییلے اسٹاریچی نے انتہائی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مردہ رہنما کو فاشسٹ سلامی پیش کی۔ اس وقت اس نے جاگنگ سوٹ پہن رکھا تھا۔ اسے فوراً پکڑ لیا گیا اور تمام لوگوں کے سامنے اس کی پیٹھ میں گولی مار دی گئی۔

وہ مزید لکھتے ہیں ’ اسی دوران فاشسٹ پارٹی کے اہم رہنما فرانسسکو فاراشکو براشو کی لاش کی رسی ٹوٹ گئی اور وہ زمین پر گر گئی ۔ اس کے بعد مسولینی کی لاش کی رسی بھی کاٹ دی گئی اور اس کا جسم بھی پیازالے لوریٹو کے پتھروں پر گرا۔‘

خوفناک منظر

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

بونیٹو موسلینی

ٹائم میگزین کے نمائندے ریگ انگراہم بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ بعد میں انھوں نے اپنے مضمون ‘دی ڈیتھ ان میلان’ میں لکھا ’سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ اچانک ایک شخص تمام لاشوں کے اوپر چڑھ گیا اور مسولینی کے گنجے سر کو پوری قوت سے لات ماری۔ پھر ایک اور شخص نے مردہ مسولینی کا سر رائفل بٹ سے سیدھا کیا۔ موت کے بعد مسولینی بہت چھوٹے نظر آ رہے تھے۔ انھوں نے فاشسٹ ملیشیا کی وردی پہن رکھی تھی۔

‘ان کے پاؤں میں سیاہ رنگ کے رائڈنگ بوٹ تھے، جو کیچڑ میں لت پت تھے۔ ایک گولی ان کی بائیں آنکھ کے قریب داخل ہو کر سر کے پچھلے حصے سے نکل گئی تھی۔ اسی وجہ سے ان کے سر میں ایک بہت بڑا سوراخ تھا جہاں سے ان کے مغز کے کچھ حصے باہر نکل آئے تھے۔ ان کی 25 سالہ گرل فرینڈ کلیریٹا پیٹاچی نے سفید رنگ کا ریشمی بلاؤز پہن رکھا تھا۔ ان کے سینے پر دو گولیوں کے سوراخ تھے جہاں سے خون نکل کر جم چکا تھا۔‘

مسولینی کی موت پر نیو یارک ٹائمز نے لکھا تھا ‘ایک شخص جس نے قدیم روم کی عظمت کو واپس لانے کی بات کی تھی اس کا جسم میلان کے ایک چوک میں پڑا تھا اور ہزاروں افراد اسے ٹھوکر مار کر، اس پر تھوک کر لعنت بھیج رہے تھے۔‘

موسوکو قبرستان میں تدفین

امریکی فوجیوں کی مداخلت کے بعد دو پہر ایک بجے تمام لاشوں کو لکڑی کے تابوت میں رکھ کر اسے شہر کے مردہ خانے بھیج دیا گیا۔ وہاں مسولینی کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ اس وقت 5 فٹ 6 انچ کے مسولینی کا وزن 79 کلو تھا۔ ان کی موت کی وجہ چار گولیاں تھیں جو ان کے سینے کے پار نکل گئی تھیں۔

ان کے پیٹ پر السر کے نشانات تھے لیکن سیفلیس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اس سے قبل یہ افواہ گرم تھی کہ مسولینی سیفلیس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مسولینی کی لاش کو میلان میں موسوکو قبرستان کی قبر نمبر 384 میں دفن کیا گیا۔

ان کے دماغ کے کچھ حصے کو واشنگٹن کے سینٹ الزبتھ سائیکائٹرک ہسپتال میں جانچ کے لیے بھیجا گیا تھا جو دہائیوں بعد ان کی بیوہ ڈونا راشیل کو واپس کر دیا گیا۔

مسولینی میلان سے بھاگے

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

بونیٹو موسلینی

کلیریٹا کو 9 ملی میٹر کی دو گولیاں لگیں۔ انھیں بھی میلان میں ہی ریٹا کولفوسکو کے نام سے دفن کیا گیا۔ مسولینی اور کلیریٹا کی آخری گنتی 18 اپریل سنہ 1945 کو میلان پہنچنے کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ 21 اپریل کو امریکہ کے یو ایس او ایس کے فوجی بھیج کر مسولینی کی گرفتاری کے منصوبے کو ہائی کمان نے منظور نہیں کیا تھا۔

جبکہ اگلے ہی دن مسولینی کی سکیورٹی میں شامل جرمن ویفن ایس ایس بٹالین کو ہٹا کر بڑھتی ہوئی اتحادی اور کمیونسٹ پارٹیزنز کی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔

بلیئن ٹیلر ‘وارفیئر ہسٹری نیٹورک’ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ‘دی شاکنگ سٹوری آف ہاؤ مسولینی ڈائیڈ’ میں لکھتی ہیں کہ ‘اس وقت اس طرح کی خبریں تھیں کہ مسولینی کے کچھ فاشسٹ ساتھی اور کلیریٹا کے بھائی مارسیلو، مسولینی کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ جرمنی بھی اپنی جان بچانے کے لیے اتحادی ممالک سے مسولینی کا سودا کرنے کے لیے راضی ہو گیا تھا۔

‘کیتھولک چرچ اور چند لاطینی امریکی ممالک نے بھی مسولینی کو سیاسی پناہ کی پیش کش کی تھی لیکن مسولینی نے انھیں یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور آخری وقت تک لڑیں گے۔ جب مسولینی کو معلوم ہوا کہ جرمن فوجی 25 اپریل کو خفیہ طور پر ہتھیار ڈالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو انھوں نے فوری طور پر میلان چھوڑ دیا۔ ان کے ساتھ ان کے جرمن باڈی گارڈ چیف فرٹز برزر اور خفیہ پولیس کے لیفٹیننٹ اوٹو کسنیٹ بھی موجود تھے۔ ان دونوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ مسولینی کو اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور اگر وہ فرار ہونے کی کوشش کریں تو وہ انھیں خود گولی مار دیں۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ہٹلر اور موسلینی

بہرحال مسولینی کو یہ بتایا دیا گیا تھا کہ غیر جانبدار سوئٹزرلینڈ انھیں قبول نہیں کرے گا لیکن وہ حتمی جنگ لڑنے کے بجائے سوئٹزرلینڈ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جبکہ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسولینی سوئٹزرلینڈ نہ جا کر نازی کے کنٹرول والے آسٹریا کے ٹیلورین علاقے میں جانا چاہتے تھے۔

27 اپریل کو مسولینی کے قافلے کو 52 ویں گریبالڈی پارٹیزن بریگیڈ کے فوجیوں نے جھیل کومو کے قریب روکا۔ انھوں نے جرمن فوجیوں سے کہا کہ انھیں اس شرط پر آگے بڑھنے دیا جائے گا جب وہ اپنے ساتھ چلنے والے اطالویوں کو ان کے حوالے کر دیں گے۔

رے موزلی کہتے ہیں کہ ‘موسلینی کے ہمراہ سفر کرنے والے لیفٹیننٹ ہانز فالمیئر اور فرٹز برزر نے اس شرط کو قبول کرنے پر اتفاق کیا۔ جب برزر نے بکتر بند گاڑی میں مسولینی کو اپنا فیصلہ سنایا تو انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ لیکن کوئی دوسرا آپشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اس بات پر راضی ہو گئے۔ پھر برزر نے اپنا اوور کوٹ اتارا اور مسولینی کو پہنا دیا۔ لیکن مسولینی اس کو پہننے میں ہچکچا رہے تھے کیونکہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ان کے لیے یہ شرم کی بات ہوگی کہ وہ ایک جرمن گاڑی میں جرمن فوجی کی وردی پہنے ہوئے پکڑے گئے۔‘

مسولینی کی شناخت ہوئی

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ہٹلر اور موسلینی

مسولینی بکتر بند کار سے اترنے کے بعد دوسرے ٹرک میں سوار ہوگئے۔ انھوں نے جرمن فوج کا سٹیل کا ہیلمٹ الٹا پہن رکھا تھا۔ لیفٹیننٹ برزر نے اسے سیدھا کیا۔ قافلے میں روانہ چوتھے ٹرک کے ایک کونے میں پڑے مسولینی نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ شراب کے نشے میں مدہوش ہیں۔ لیکن آسٹریا اور فاشسٹ پارٹی کے نکولا بومباچی نے ‘پارٹیزنز’ کو بتایا کہ قافلے میں کچھ اطالوی شامل ہیں لہذا آپ ٹرکوں کی تلاشی لیجیے۔

اس کے بعد ‘پارٹیزنز’ نے ٹرکوں کے قافلے کو دوبارہ روکا۔ اطالوی بحریہ کے ایک پرانے جہاز راں گیسیپ نیگری نے ٹرک کی تلاشی لی اور انھوں نے فوری طور پر مسولینی کو پہچان لیا۔ اس نے اپنے ساتھی آربونو لزارو کو آگاہ کیا کہ مسولینی ان کی گرفت میں ہے۔ لزارو ٹرک کے اوپر چڑھ گئے اور مسولینی کے کندھے پر تھپتھپایا اور کہا کامریڈ۔ لیکن مسولینی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے مزید اونچی آواز میں مسولینی کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا ‘یور ایکسیلینسی’۔ مسولینی پھر بھی خاموش رہے۔ اس کے بعد لزارو نے تیسری بار کہا، ‘کیویلیئر بینیٹو مسولینی’۔

جہاز راں گیسیپ نیگری نے بعد میں بتایا ‘میں نے مسولینی کا ہیلمٹ اتارا۔ ان کا سر گنجا تھا۔ پھر میں نے ان کے سن گلاسز اتار کر ان کے کالر کو نیچے کردیا۔ مسولینی میرے سامنے بیٹھے تھے۔ لزارو نے مسولینی کی مشین گن اٹھا لی اور پھر مسولینی نے ایک لفظ بھی کہے بغیر اپنی 9 ایم ایم گلیسینٹی آٹومیٹک پستول ان کے حوالے کردی۔ پھر لزارو نے ان سے پوچھا ‘کیا آپ کے پاس کوئی اور ہتھیار ہے؟’ اس پر انھوں نے کہا ‘میں مسولینی ہوں۔ میں آپ کے لیے کوئی مشکلات پیدا نہیں کروں گا۔‘

مسولینی کا بریف کیس

مسولینی کو ٹرک سے اتار کر ٹاؤن ہال لے جایا گیا۔ رے موزلی کے مطابق مسولینی نے فرٹز برزر کا دیا ہوا اوور کوٹ اتارا، کیونکہ یہ کوٹ ان کے لیے بہت بڑا تھا۔ اس کے نیچے انھوں نے کالی قمیض اور ملیشیا کی پتلون پہن رکھی تھی۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں ایک بریف کیس تھا جس میں ان کے انتہائی اہم ذاتی کاغذات تھے۔

جب وہ بریف کیس ان سے لیا گیا تھا تو مسولینی نے کہا ‘اس کا خیال رکھنا۔ اس میں اٹلی کی قسمت قید ہے۔‘ بعد میں جب ان کی جانچ پڑتال کی گئی تو اس میں مسولینی کے ذریعے ہٹلر اور چرچل کو لکھے گئے خطوط تھے۔ اس میں اٹلی کے ولی عہد شہزادہ امبرٹو کی ہم جنس پرست سرگرمیوں کی تفصیلات بھی تھیں۔ اس کے بعد مسولینی کو بونزانگو کے فارم ہاؤس لے جایا گیا۔

تھوڑی دیر بعد ان کی گرل فرینڈ کلیریٹا پیٹاچی کو بھی وہاں لایا گیا۔ دونوں نے رات ایک ہی بستر پر گزاری۔ دریں اثنا کرنل ویلریو کو انھیں موت کی سزا دینے کے لیے میلان سے بھیجا گیا۔ ویلریو نے مسولینی اور کلریٹا دونوں کو ایک کار میں بٹھایا۔

گولی مارنے کے مقام پر تنازع

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

موسلینی کی گرل فرینڈ کلریٹا

بعد میں 19 سالہ ڈورونا مزولا نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے مسولینی اور کلیریٹا کو ڈیماریا فارم ہاؤس کے بالکل باہر گولی مارتے ہوئے دیکھا تھا۔ بعد میں اس دعوے کی بنیاد پر مورخین نے اس حقیقت کو چیلنج کیا کہ ان دونوں کو ولا بیلمونٹ کے مرکزی گیٹ وے پر گولی ماری گئی تھی۔

یہ بھی متنازع ہے کہ مسولینی اور کلیریٹا پر پہلے گولی کس نے چلائی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پہلے ہی مارے جا چکے مسولینی اور کلیریٹا کی لاشوں پر ولا بیلمونٹ میں ایک بار پھر گولی چلائی گئی۔ بعد میں مارچ سنہ 1947 میں روم میں منعقدہ ایک انتخابی ریلی میں پارٹیزن کے والٹر آڈیسیو نامی شخص نے 40 ہزار افراد کے سامنے اعتراف کیا کہ انھوں نے مسولینی اور کلیریٹا کو گولی ماری تھی۔

آڈیسیو نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ بعد میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ شوٹنگ کے دوران آڈیسیو کی مشین گن اور پستول دونوں ناکام ہوگئے تھے اور پھر آڈیسیو نے مسولینی پر اپنے ایک ساتھی موریٹٹو کی سب مشین گن سے پانچ گولیاں چلائیں۔ بعد میں ولیریو نے مسولینی کے آخری وقت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘مسولینی خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے اور اپنی جان بخشی کی التجا کر رہے تھے۔’ ایک ’پارٹیزن’ کے مطابق مسولینی کے آخری الفاظ تھے ‘میرے سینے پر گولی مارو۔’ جبکہ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ ‘مسولینی نے کہا میرے دل کا نشانہ لو‘۔

مسولینی سے متاثر ہوکر ہٹلر نے خودکشی کی

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

موسلینی

بعض مورخین کا خیال ہے کہ مسولینی کے جسم کے ساتھ ناروا سلوک نے ہٹلر کو خودکشی کرنے اور پھر اپنے جسم کو جلا دینے کی ترغیب دی۔ پروفیسر کرٹزر نے اپنی کتاب ‘دی پوپ اینڈ مسولینی’ میں لکھا ‘مسولینی کی موت کی خبر ہٹلر کو 29 اپریل سنہ 1945 کو ریڈیو کے ذریعے اپنے زیرزمین بنکر میں ملی۔ تمام تفصیلات جاننے کے بعد ہٹلر نے کہا کہ ’میری لاش کسی بھی قیمت پر دشمنوں کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے۔‘

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button