اہم نکات
-
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہو گئی ہے اور فیصلہ کل صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔
-
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت مکمل ہو گئی ہے اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا جو تھوڑی دیر بعد سنایا جائے گا۔
-
صدرِ پاکستان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے کے پی میں انتخابات کی تاریخ کی ایڈوائس واپس لینے کا فیصلہ کر لیا
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت نے فیصلہ کیا ہے کہ کے پی میں انتخابات کی تاریخ لینے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں۔
صدر مملکت کا کہنا ہے کہ کے پی میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی۔ صدر مملکت نے کہا ہے کہ کے پی میں انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر ہی کا اختیار ہے۔
اس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اب تک صدر مملکت نے کے پی کی حد تک ایڈوائس واپس کیوں نہیں لی؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ صدر مملکت جلد ایڈوائس واپس لیں گے۔
-
مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ ن نہیں چاہتی کہ آئین کی خلاف ورزی ہو۔
قومی اسمبلی کا الیکشن ہو گا تو پنجاب اور کے پی کے میں منتخب حکومتیں ہوں گی۔ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے یکساں میدان ملنا مشکل ہے۔ قومی اسمبلی کے انتحابات پر سوالیہ نشان اٹھے گا۔
اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ایشو اس وقت عدالت کے سامنے نہیں ہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل عدالت مردم شماری کو بھی مدنظر رکھے۔ 30 اپریل تک مردم شماری مکمل ہو جائے گی۔ وکیل ن لیگ
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر مردم شماری انتحابات سے ایک ہفتہ پہلے ہوں تو کیا الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ ن کے وکیل نے کہا کہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ موجود کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔
جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ آئین واضح ہے انتحاب نوے دن میں ہوں گے۔
-
سپریم کورٹ میں الیکشن سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ’اپنی قیادت سے بات ہوئی ہے، پیپلز پارٹی قیادت کا موقف ہے کہ الیکشن کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں۔‘
مسلم لیگ ن کے وکیل عثمان اعوان نے کہا کہ اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہوئی ہے۔ مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ’صدر نے الیکشن کی تاریخ وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بغیر دی، بغیر ایڈوائس الیکشن کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے۔ صدر نے الیکشن کمیشن سے بھی مشاورت نہیں کی۔‘
-
عدالت نے از خود نوٹس کیس میں شام چار بجے تک کا وقفہ دے دیا۔
عدالت نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’ہم فیصلہ کربھی دیں تو مقدمے بازی چلتی رہے گی۔ مقدمہ بازی عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے مہنگی ہو گی۔‘
-
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا۔ عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ٹھوس وجوہات کا جائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔ معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا۔ آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو۔ قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔ الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اُٹھا رہے۔ پہلی بار ایسی صورتحال ہےکہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے۔ آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کر دے گا۔ معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔‘
-
ترجمان اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
منگل کو ایک بیان میں ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ ’جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہونے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔‘
ترجمان کے مطابق ’احاطۂ عدالت سے جن افراد نے دروازہ کھولنے میں معاونت کی ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔ سی سی ٹی وی کیمروں سے شناخت عمل میں لائی جا رہی ہے۔‘
-
کیس کی سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ کی درخواست واپس لے لی۔
سیاسی جمعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ ’سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ہدایت کی ہے کہ فل کورٹ کی درخواست نہیں چلائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے پانچ رکنی لارجر بنچ جو بنایا ہے وہی کیس سنے۔‘
-
چیف جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’نگراں حکومت گورنر نے بنائی ہےتو الیکشن کی تاریخ کیوں نہیں دینی؟ ‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’گورنر اور الیکشن کمیشن سے پوچھیں گے کہ الیکشن کمیشن کی تاریخ کیوں نہیں آئی؟‘
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’کے پی کے حکومت مالی خسارے کا شکار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کر سکتی۔‘
عدالت نے سیاسی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو روسٹرم پر بلا لیا۔
فاروق ایچ نائیک نے موقف اپنایا کہ ’الیکشن ہوں گیے تو حصہ بنیں گے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’اولین ترجیح آئین کے مطابق چلنا ہے،آئین کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن چِٹھیوں کے پیچھے خاموش ہے۔‘
-
بینکنگ کورٹ نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کر لی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں بھی عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی گئی ہے۔
منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کی۔
-
جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ ’ہائی کورٹ نے مشاورت کرکے تاریخ دینے کا حکم دیا تھا۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنر سے ملاقات کی۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا گورنر کے پی سے تاریخ بات ہوئی ہے؟‘
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل شہریار سواتی نے بتایا کہ گورنر کے پی کو یاددہانی کا خط بھی لکھا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’پشاور ہائیکورٹ بھی نوٹس نوٹس ہی کررہی ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے باور کرایا کہ ’تمام ادارے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ گورنر نے دیگر اداروں کے ساتھ رجوع کرنے کا کہا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’گورنر خیبرپختونخوا کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا۔‘
-
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’گورنر کی ذمہ داری ہے اسمبلی تحلیل کرے یا نہ کرے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’گورنر کہتے ہیں اسمبلی تحلیل نہیں کی تو تاریح کیوں دوں۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’ہماری نظر میں گورنر کا موقف درست نہیں۔ شیڈول کو مدنظر رکھ کر ہی گورنر کو تاریخیں تجویز کی گئی تھیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’کیا گورنر نے مشاورت کے لیے الیکشن کمیشن کو بلوایا تھا؟‘
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ’گورنر نے مشاورت کے لیے انہیں بلایا۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’گورنر نے مشاورت کے بجائے انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی۔‘
-
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل شہریار سواتی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ’الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت کام کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن تین طرز کی تاریخ دے سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن سینیٹ، صدارتی اور ضمنی الیکشن کی تاریخ دے سکتا ہے۔ ہم صرف پنجاب اور کے پی کے کے الیکشنز کی بات کررہے ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’ہمارا پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر نے کرنا ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وزیر اعلی کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کا اپنا اثر ہے۔ حتیٰ کہ گورنر اسمبلی نہ بھی توڑے پھر بھی وہ عملدرآمد ہوتا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کا کہنا ہے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرے یا نہ وہ تاریخ دے گا۔‘
جس پر انہوں نے بتایا کہ ’پنجاب کے گورنر کہتے ہیں کہ میں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’کیا وہ آج تک اس موقف پر قائم ہیں؟‘
جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل شہریار سواتی نے بتایا کہ ’ہم نے گورنر پنجاب کو نو سے 13 اپریل تک الیکشن تاریخ دینے کے لیے خط لکھا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ’گورنر آنکھیں بند کرکے تاریخ دیتے ہیں یا مشاورت سے؟ گورنر کو الیکشن کمیشن کے شیڈول کا کیا علم؟‘
انہوں نے وکیل الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ ’گورنر نے مشاورت کے لیے آپ کو بلایا یا نہیں؟‘
جس پر شہریار سواتی نے بتایا کہ گورنر کی الیکشن کمیشن سے مشاورت تقاضا نہیں ہے۔
-
از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ’اگر وزیراعظم ایڈوائس نہیں دیتے تو کب تک صدر نے انتظار کرنا ہے؟‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’کئی قوانین گھنٹوں میں بنائے گئے آج بھی قانون بنا کر زمہ داری دے دیتے۔‘
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’آج کی پارلیمنٹ کی قانون سازی پر ویسے ہی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ دینی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’90 کی مدت مکمل ہو رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی نیت پر شک نہیں کر رہا۔‘
-
سابق وزیراعظم عمران خان کا قافلہ جوڈیشل کمپلیکس پہنچ گیا
-
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’قانون واضح نہیں تو کیسے کہیں الیکشن کمیشن غلطی کر رہا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ 90 دن سے تاخیر پر عدالت اجازت دے سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کرے گی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں کریں گے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا نگراں کابینہ گورنرز کو سمری بھجوا سکتی ہے؟‘
جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’گورنر اور کابینہ دونوں آئین کی پابند ہیں۔ نگراں کابینہ الیکشن کی تاریخ کے لیے سمری نہیں بھجوا سکتی۔‘
-
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن ایکٹ کا اختیار آئین سے بالا تر نہیں ہوسکتا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’صدر کا اختیار الیکشن کمیشن سے متضاد نہیں ہوسکتا۔‘
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ بطور اٹارنی جنرل قانون کا دفاع کرنے کی بجائے اس کے خلاف بول رہے ہیں۔‘
جسٹس علی مظہر نے کہا کہ ’سیکشن 57 ون ختم کر دیں تو الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔‘
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخاب تاریخ کا اعلان کرے، الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے 14 اپریل تک الیکشن ممکن نہیں۔ ٹھوس وجوہات کے ساتھ الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ کسی نے ابھی تک تاریخ ہی نہیں دی سب کچھ ہوا میں ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس 90 روز سے تاخیر کا اختیار کہاں سے آیا؟ جھگڑا ہی سارا 90 روز کے اندر الیکشنز کرانے کا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹھوس وجوہات پر آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’تاریخ کا اعلان کیے بغیر آرٹیکل 254 کا سہارا کیسے لیا جا سکتا ہے؟‘
-
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’پنجاب میں 90 روز کی مدت 14 اپریل کو پوری ہو رہی ہے۔ صوبائی عام انتخابات 25 اپریل سے پہلے ممکن نہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’نیت ہو تو راستہ نکل ہی آتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے۔ انتخابی مہم کےلئے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں۔ نوے روز کے اندر انتخابات کے لیے مہم کا وقت کم کیا جا سکتا ہے۔‘
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن بااختیار ہے، کیا شیڈول میں تبدیلی کرسکتا ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’دو یا چار دن اوپر ہونے پر آرٹیکل 254 لگ سکتا ہے۔‘
-
سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’صدر نے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 ون کا استعمال کیا ہے۔ اگر صدر کا اختیار نہیں تو سیکشن 57 ون غیر موثر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر سیکشن 57 ون غیر موثر ہے تو قانون سے نکال دیں۔‘
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ’میرے حساب سے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہے تو کسی سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔‘
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ ’آئین اور قانون کی منشا کو سمجھیں۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کرنا ہو تو صدر اور گورنر کا کردار کہاں جائے گا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کا کردار ہر صورت میں اہم ہے۔‘
-
وقفے کے بعد ازخود نوٹس پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے جس کی ذمہ داری انتخابات کرانا ہے۔ گورنر پنجاب کا موقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے۔‘
انہوں نے کہ کہ ’گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا ہے کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’سمجھ نہیں آتا ہائی کورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا؟ بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے۔ ایسے کون سے نکات تھے جس کی تیاری کے لیے وکلاء کو 14 دن درکار تھے؟‘
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔
-
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ’انتخابات 90 روز سے آگے کون لے کر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے؟‘
جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے، صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔‘
اٹارنی جنرل کے مطابق ’صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں۔دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے باور کرایا کہ ’صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔‘
اٹارنی جنرل کے بقول ’گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا
-
عوامی جلسوں میں مریم نواز کے جج صاحبان کے خلاف تبصرے
مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز کے خلاف توہینِ عدالت کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا گیا ہے۔
خط سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے۔
خط میں چیف جسٹس سے ’عدالت کی ساکھ، تکریم اور معزز ججز کے وقار کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی‘ کی استدعا کی گئی ہے۔
-
جسٹس علی مظہر نے کہا کہ ’گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’صدر کے اختیارات براہِ راست آئین نے نہیں بتائے۔ آئین میں اختیارات نہیں توپھر قانون کے تحت اقدام ہو گا۔ قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہو گا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے، صدر مملکت کس قانون کے تحت چِٹھیاں لکھ رہے ہیں؟‘
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ ’صدر مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’نگراں حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا کہ ’دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے کہ صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔‘
-
سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیںکی۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ’تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔‘
وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ ’اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل عابد زبیری سے سوال کیا کہ ’کیا آپ کہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے۔ اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل نے کہا کہ ’وقت کے دباؤ میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دیں گے۔ میرا موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔‘
-
مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت
منگل کو لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کی سینیئر نائب صدر مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے درخواست گزار کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کی ہدایت کی۔
جسٹس شجاعت علی خان نے کہا کہ ’عدالت کے پاس کس طرح براہ راست توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار ہے؟‘ کیا یہ عدالت سپریم کورٹ کے جج کی توہین کے بیان پر کارروائی کا اختیار رکھتی ہے؟‘
عدالت نے استفسار کیا کہ کس آرڈر کی توہین ہوئی۔
درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ ’آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 کے تحت اعلٰی عدالتوں کو توہین عدالت کی کارروائی کا مکمل اختیار ہے۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’کس قانون کے تحت آپ نے درخواست دائر کی،‘ جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ ’میں نے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی درخواست دائر کی۔‘
درخواست گزار نے بتایا کہ ’ سرگودھا میں ورکر کنونشن میں مریم نواز نے ججوں کو پانچ کا ٹولہ کہا۔‘
لاہور ہائی کورٹ نے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
-
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’صدر اور گورنر معاملے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں۔ کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’نگراں حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ ’جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ’اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرے گا؟‘
جس پر وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکرٹری قانون نے جاری کیا۔
-
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے چار طریقے بتائے گئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’نگراں حکومت توسات روز بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’پنجاب کے کیس میں وزارت قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا گورنر نے نہیں۔‘
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہوسکتی ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر حکومت کی تاریخ کے حوالے سے ایڈوائس آجائے تو گورنر کیسے انکار کر سکتا ہے۔‘
-
اٹارنی جنرل نے اعتراض اُٹھایا کہ ’عابد زبیری درخواست گزار کے وکیل ہیں، بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔‘
جس پر عابد زبیری نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں، کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔‘
انہوں نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہو گا۔ آیا موجودہ حکومت یا سابق حکومت انتخاب کے اعلان کا کہے گی؟‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’اس کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہو گا۔‘
-
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’90 دن کا وقت اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’کیا نگران وزیراعلٰی الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے؟‘
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ ’الیکشن کی تاریخ اور نگراں حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ’کیا گورنر نگران حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتا ہے؟‘ جس پر وکیل عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے وزیراعلٰی کا نہیں۔
-
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسویشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا۔ جب ججز دستحط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔‘
-
سپریم کورٹ میں الیکشن کے لیے ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان اور جسٹس محمد علی مظہر پانچ رکنی بینچ میں شامل ہیں۔
-
عمران خان لاہور سے براستہ موٹر وے اسلام آباد روانہ
سابق وزیراعظم عمران خان آج منگل کو انسداد دہشت گردی اور بینکنگ کورٹ میں پیش ہوں گے۔
عمران خان کا قافلہ زمان پارک سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گیا ہے۔
سابق وزیراعظم لاہور سے براستہ موٹروے اسلام آباد پہنچیں گے۔