پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جنگوں اور تنازعات کا بنیادی شکار خواتین ہیں۔
انہوں نے خواتین کے حقوق پر زور دیتے ہوئے عالمی کمیونٹی سے کہا کہ ابھی اس ضمن اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں آج بھی خواتین کو جبر اور مسائل کا سامنا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق منگل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ہونے والے مباحثے ’خواتین، امن اور سلامتی‘ سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ادارے کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس نے خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے خواتین کے حقوق پر زور دیتے ہوئے عالمی کمیونٹی سے کہا کہ ابھی اس ضمن اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں آج بھی خواتین کو جبر اور مسائل کا سامنا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے عراق، افغانستان، یوکرین اور افریقی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ان پر مسلط کی گئی جنگوں میں آج بھی خواتین کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔‘
بلاول بھٹو نے افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہب میں خواتین کو تعلیم سے روکا یا کام کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔
مقبوضہ علاقوں میں خواتین کے حقوق کی خلاف خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطین، جموں اور کشمیر میں اس کے واضح مظاہرے ہو رہے ہیں۔
’دینا کو جنگوں، نفرت، تنازعات، شدت پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے اور جنیوا کنونشن میں تحفظ کی ضمانت کے باوجود عام شہریوں کو مصائب کا سامنا ہے۔‘
قبل ازیں اقوام متحدہ کے حکام نے کہا کہ جنگوں اور تنازعات کا بنیادی شکار خواتین ہیں لیکن پھر بھی سفارتی محاذوں پر ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آج عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے شعبہ خواتین کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سیما باہوس نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے پوری دنیا میں خواتین کے تحفظ اور حقوق کی فراہمی کے لیے کردار ادا کرے۔
انہوں نے منگل کو سکیورٹی کونسل میں ’خواتین، سلامتی اور امن‘ کے عنوان سے ہونے والے اجلاس میں کہا کہ ’ہمیں یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم امن کے حوالے سے بات چیت میں کوئی زیادہ تبدیلی لا سکے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں کی راہ روک سکے ہیں جو خواتین پر مظالم ڈھاتے ہیں۔‘
باہوس نے افغانستان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جنس کی بنیاد پر امتیاز جاری ہے اور جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں ان کو عام شہریوں کی طرح زندگی گزارنے سے روک دیا گیا ہے۔
’ان کے یونیورسٹیوں اور پارکس میں جانے پر پابندی لگائی گئی ہے جبکہ ملازمتوں سے بھی ہٹایا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’افغانستان خواتین کے حقوق دبانے کی بڑی مثالوں میں سے ایک ہے تاہم یہ صرف ایک نہیں ہے۔‘
یوکرین اور روس کی جنگ جو اب دوسرے سال میں داخل ہو گئی ہے، کا تذکرہ کرتے ہوئے باہوس نے کہا کہ جنگ کی وجہ سے جن 80 لاکھ یوکرینی باشندوں کو ملک چھوڑنا پڑا ان میں سے 90 فیصد خواتین اور بچے ہیں جبکہ جو لوگ اپنے ملک کے اندر ہی بے گھر ہوئے ان میں بھی 70 فیصد خواتین ہیں۔
’امن ہی واحد حل ہے جس میں خواتین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ 2000 میں منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تاریخی قراردادوں کے مطابق کام کریں۔ جن میں تنازعات کے حل اور خواتین کے حقوق پر زور دیا گیا ہے۔
اس موقع پر امریکی سفیر لنڈ تھامس گرینفیلڈ کا کہنا تھا کہ ’میں سب کی توجہ دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے جبر کی طرف مبذول کرنا چاہتی ہوں جیسا کہ ایران، افغانستان اور روس کے زیرقبضہ یوکرین کے علاقوں کے علاوہ دنیا میں دوسرے مقامات پر ہو رہا ہے۔‘
فرانسیسی نمائندہ مارلین سیچیپا، جنہوں نے حال ہی میں اپنے ملک کے لیے ایکویلٹی منسٹر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں، کا کہنا تھا کہ جنگوں اور بحرانوں میں سب سے بڑی قیمت خواتین کو چکانا پڑتی ہے۔
انہوں نے یوکرین، صومالیہ اور دوسرے جنگ زدہ علاقوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سب سے زیادہ متاثر خواتین ہو رہی ہیں اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے انہیں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ’جو ایسی چیزوں کے ذمہ دار ہیں، ان کو ایک روز اس کا جواب دینا پڑے گا۔‘