
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
فرنٹیئر کور خیبرپختونخوا (جنوبی) کی انٹیلی جنس کارروائی کے دوران جنوبی وزیرستان سے ایک خودکش حملہ آور کی گرفتاری نے افغان طالبان اور منحرف گروہوں کے درمیان مبینہ رابطوں اور نوجوانوں کی بھرتی کے طریقہ کار کے متعلق سنگین انکشافات کر دیے ہیں۔
مقامی سکیورٹی ذرائع کے مطابق گرفتار شخص کی شناخت نعمت اللہ ولد موسیٰ جان بتائی گئی ہے جو افغانستان کے صوبہ قندھار کا رہائشی ہے۔ گرفتار شدہ نے انٹیروگیشن میں متعدد کشیدہ اور تشویشناک اعترافات کیے جن میں افغان علاقوں میں تربیت، سرحد پار کر کے پاکستان میں داخلے اور عسکریت پسند مراکز میں شمولیت شامل ہے۔
گرفتاری اور ابتدائی اعترافات
فرنٹیئر کور کے مطابق نعمت اللہ کو انٹیلی جنس بنیادوں پر گرفتار کیا گیا اور اس کے بیان میں کہا گیا کہ وہ قندھار کے ایک مدرسے کا طالب علم تھا جہاں وہ قرآن حفظ کر رہا تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ مدرسے کے چند افراد نے انہیں پاک فوج کے خلاف "جہاد” کی تبلیغ کی، اور گروپ کئی افراد پر مشتمل ہو کر خوست سے حرکت کرتے ہوئے سرحدی راستوں کے ذریعے پاکستان داخل ہوئے۔
نعمت اللہ نے اپنی تقریبی کہانی میں ذکر کیا کہ انہیں ایک عسکری کمانڈر عمر حماس کے تحت مختلف قسم کی تربیت دی گئی، جس کے بعد وہ خودکش کارروائیوں کے لیے تیاری میں شامل ہوا۔ اس نے بتایا کہ گروپ میں نوجوانوں کی عمر 18 سے 22 سال کے درمیان تھی اور انہیں عسکری کارروائیوں کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ گرفتاری کے بعد نعمت اللہ نے کہا کہ جب اس نے مذہبی نقطۂ نظر سے غور کیا تو اسے احساس ہوا کہ فوج کے خلاف خودکش حملہ شرعی طور پر درست نہیں۔
سیکیورٹی خدشات اور سرحدی منسلکیت
نعمت اللہ نے پاکستان میں سرحد پار سے دہشت گردی کے خطرات اور نوجوانوں کی بھرتی کے عمل پر روشنی ڈالی ہے۔ سکیورٹی حکام نے بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور مزید گرفتاریوں اور شواہد کے حصول کے لیے آپریشنز ممکنہ طور پر توسیع دیے جائیں گے۔ حکام نے اس گرفتاری کو علاقائی سکیورٹی نیٹ ورکس کی نشاندہی قرار دیا اور کہا کہ اس نوعیت کے معاملات بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اشتراکِ معلومات کے ذریعے ہی کامیابی سے نمٹائے جا سکتے ہیں۔
سماجی و مذہبی تشہیر کے ذریعے بھرتی
گرفتار شدہ کے اعترافات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بعض مدرسوں اور مذہبی حلقوں کو بنیاد بنا کر نوجوانوں میں عسکری فہم اور تشدد کو جائز ٹھہرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو بنیادوں پر بھرتی کرنے والی یہ حکمتِ عملی عموماً مذہبی تشہیر، گروہی دباؤ اور معاشی یا سماجی کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ ماہرین نے ہسپتالیت، تعلیمی اصلاحات اور اشتراکِ کمیونٹی پروگرامز کو اس مسئلے کے دیرپا حل کے طور پر اہم قرار دیا۔
سرکاری ردعمل اور آئندہ حکمتِ عملی
فرنٹیئر کور اور مقامی انتظامیہ نے گرفتاری کو مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع فوراً متعلقہ سکیورٹی اداروں کو دیں۔ حکام نے وعدہ کیا کہ گرفتار شدہ کی نشاندہی کی بنیاد پر مزید تحقیقات کر کے ممکنہ نیٹ ورکس کی شناخت اور اسے توڑنے کے لیے کارروائیاں کی جائیں گی۔ ساتھ ہی مقامی سطوح پر حساس علاقوں میں حفاظتی اقدامات میں اضافہ اور انٹیلی جنس شیئرنگ کو بھی فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔
علاقائی ماحول اور نوجوانوں کی حفاظت
سماجی کارکنان اور کمیونٹی رہنماؤں نے بھی نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے لیے شعوری مہمات، تعلیمی و پیشہ ورانہ مواقع کے فروغ اور دینی اداروں میں نگرانی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جلد از جلد سماجی اور اقتصادی سطح پر کنکریٹ اقدامات کیے جائیں تو نوجوان انتہائی گروہوں کی جانب مائل ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں۔
نتیجہ: چیلنجز اور ضرورتِ مربوط حکمتِ عملیاں
نعمت اللہ کی گرفتاری اور اس کے اعترافات نے ایک بار پھر یہ واضح کیا کہ امن و امان کے مسائل محض علاقائی باریک بینی تک محدود نہیں بلکہ نوجوانوں کی ذہنی و سماجی حفاظت، سرحدی نگرانی، مدرسہ نگرانی اور بین الاقوامی تعاون جیسے وسیع پہلوؤں پر مرکوز رہنمائی مانگتے ہیں۔ سکیورٹی اداروں، مذہبی و تعلیمی قیادت، اور مقامی آبادی کے باہمی اشتراک کے بغیر اس قسم کے خطرات کا مستقل خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔
فرنٹیئر کور کے جاری کردہ ابتدائی پیغام اور گرفتار شدہ کے اعترافی بیانات کی روشنی میں تحقیقات جاری ہیں، اور حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ روزوں میں اس کیس سے متعلق مزید تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں گی۔ مقامی امن و امان اور سرحدی سلامتی کے حوالے سے خدشات کے پیشِ نظر، انتظامیہ نے عوام سے محتاط رہنے اور کسی بھی مشکوک حرکت کی اطلاع دینے کی اپیل دہرائی ہے۔