پاکستان پریس ریلیزتازہ ترین

سیالکوٹ کے علاقے پیرو چک میں احمدی خاتون کی تدفین روک دی گئی — اشتعال انگیزی، جھڑپ، اور مقدمات؛ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی

میت کو بھڈال قبرستان لے جانے کے دوران مشتعل ہجوم نے راستے میں حملہ کیا، نعرے بازی کی اور احمدی کمیونٹی کے افراد پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔

سیالکوٹ (نامہ نگار خصوصی):
ضلع سیالکوٹ کے تھانہ موترہ کی حدود میں واقع گاؤں پیرو چک میں احمدی خاتون کی تدفین مقامی قبرستان میں نہ ہونے دی گئی۔ شدت پسندوں کی جانب سے پیدا کی گئی صورتحال کے باعث سرکاری انتظامیہ نے چار دن بعد 14 کلومیٹر دور واقع ایک اور قبرستان میں تدفین کرائی۔ واقعے نے مذہبی ہم آہنگی، شہری آزادیوں، اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔

تدفین میں رکاوٹ، چار دن انتظار، پھر 14 کلومیٹر دور تدفین

احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والی 55 سالہ خاتون قدسیہ تبسم 21 ستمبر 2025ء کو وفات پا گئیں۔ اہلِ خانہ نے حسب روایت پیرو چک میں جماعت احمدیہ کے قبرستان میں تدفین کی تیاری کی، لیکن انتہا پسند عناصر نے تدفین میں رکاوٹیں ڈالیں، نعرے بازی کی اور احتجاج شروع کر دیا۔
حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے سرکاری انتظامیہ نے میت کی تدفین تین دن کے بعد، رات کی تاریکی میں، قریبی علاقے بھڈال کے قبرستان میں کروائی، جو پیرو چک سے 14 کلومیٹر دور واقع ہے۔

شدت پسندی کے واقعات — نعرے بازی، جھڑپ، اور املاک کو نقصان

میت کو بھڈال قبرستان لے جانے کے دوران مشتعل ہجوم نے راستے میں حملہ کیا، نعرے بازی کی اور احمدی کمیونٹی کے افراد پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی۔
اس دوران دونوں اطراف سے جھڑپ ہوئی، جس میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
مزید برآں، احمدیوں کے گھروں، دکانوں اور املاک پر حملے کی کوششیں کی گئیں۔ ایک احمدی کی موٹر سائیکل کو نذر آتش کر دیا گیا، جب کہ دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔

پولیس کا جانبدار رویہ؟ احمدیوں پر مقدمہ درج

صورتِ حال کے برعکس، متاثرہ احمدی خاندانوں کی داد رسی کے بجائے پولیس نے تھانہ موترہ میں احمدیوں ہی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
ذرائع کے مطابق، پولیس نے 11 نامزد اور 20 نامعلوم احمدی افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے،

قبرستان کی تاریخی حیثیت

یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہ دی گئی، وہ قیام پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ کو باقاعدہ الاٹ کیا گیا تھا۔
اہلِ علاقہ کے مطابق، یہاں تقریباً 220 احمدی افراد کی قبریں موجود ہیں، جبکہ دیگر مسالک کے بھی تقریباً 100 افراد کو اس قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔

پچھلے اڑھائی سال میں چھ احمدیوں کی تدفین رکی

مقامی ذرائع کے مطابق، گزشتہ اڑھائی برسوں کے دوران چھ سے زائد احمدیوں کی تدفین مقامی قبرستان میں نہ ہونے دی گئی، جس کے باعث لواحقین کو اپنی پیاری ہستیوں کو دور دراز علاقوں میں دفن کرنا پڑا۔
یہ صورتحال ایک منظم رویے کی نشاندہی کرتی ہے، جو نہ صرف انسانی حقوق بلکہ آئینی آزادیوں کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔

حکومت کی خاموشی پر سوالات

تاحال پنجاب حکومت یا مرکزی وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مختلف دانشور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ واقعے کی آزادانہ انکوائری کروائی جائے، متاثرین کو تحفظ دیا جائے، اور پولیس کی جانبداری کی تحقیقات کی جائیں۔

نتیجہ: صرف ایک تدفین نہیں، ایک انسانی بحران

پیرو چک کا واقعہ ایک فرد کی تدفین کا معاملہ ضرور ہے، مگر اس نے ایک وسیع تر انسانی اور آئینی بحران کو اجاگر کیا ہے۔
پاکستان کی اقلیتوں کو اس بات کی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ ریاست ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے، نہ کہ انتہا پسند عناصر کے دباؤ کے تحت فیصلے کرنے والی ایک کمزور قوت۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button