
سنیچر کے روز مبینہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے مشاورت کیے بغیر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔
حکومت کے مطابق ان آڈیو لیکس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی خودمختاری، غیر جانب داری اور کردار پر سنجیدہ خدشات نے جنم لیا ہے اور عوامی اعتماد متزلزل ہوا ہے۔
بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اس کمیشن کے دیگر دو اراکین ہیں جبکہ اٹارنی جنرل، وفاقی اور صوبائی انتظامیہ کمیشن کی معاونت کریں گی۔ کمیشن اپنا سیکریٹریٹ بھی قائم کر سکے گا۔
ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو تحقیقات کے لیے 30 دن کا وقت دیا گیا ہے۔ تاہم کمیشن کو تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار ہوا تو وفاقی حکومت توسیع کر سکتی ہے۔
کمیشن کو یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ ایسے افراد کے خلاف مجرمانہ اور انضباطی کارروائی کی بھی تجویز دے جن کی مبینہ آڈیو لیکس سچی ثابت ہوتی ہیں۔ کمیشن کو کہا گیا ہے کہ ’اگر یہ پتا چلے کہ آڈیو لیکس محض جعلسازی تھی تو ذمہ دار افراد کا پتا چلا کر انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔‘