اعظم خان کا اغوا برائے بیان اور لفافہ اینکرز ….حافظ شفیق الرحمن
وہ مبہوت و ششدر اور غلطاں و پیچاں ہے کہ خان کی اس شاندار کامیابی کا توڑ کیسے کیا جائے۔ ایسے میں خلائی مخلوق نے جانے کس سیارے سے اعظم خان کے سائفر کے حوالے سے مبینہ اعتراف بیان کی پریس ریلیز جاری کی اور اسے اپنے میڈیائی کاموں کے حوالے کیا
15 جون سے لاپتہ اعظم خان کا مبینہ اعترافی بیان جھنجھلاہٹ کے عالم میں پی ڈی ایم سرکار اور اس کے ہینڈلرز نے اس روز پریس ریلیز کی شکل میں جاری کیا جس روز عمران خان کی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک میں 20 سیکنڈ کی ویڈیو نے چند ہی گھنٹوں میں کروڑوں لائکس اور کئی ملین کومنٹس حاصل کر کے پوری دنیا میں ایک نیا عالی ریکارذ قائم کیا ۔ اس بے مثال عوامی مقبولیت نے پی ڈی ایم جماعتوں کے پاؤں تلے سے زمین اور قالین دونوں کھینچ لیے ۔ پی ڈی ایم قیادت نے پاؤں جلی بندریا کی طرح ادھر ادھر ٹاپنا شروع کیا۔ وہ مبہوت و ششدر اور غلطاں و پیچاں ہے کہ خان کی اس شاندار کامیابی کا توڑ کیسے کیا جائے۔ ایسے میں خلائی مخلوق نے جانے کس سیارے سے اعظم خان کے سائفر کے حوالے سے مبینہ اعتراف بیان کی پریس ریلیز جاری کی اور اسے اپنے میڈیائی کاموں کے حوالے کیا ۔ دیکھتی آنکھوں غریدہ فاروقی ، منیب فاروق ،محمد مالک ، کامران شاہد ، حامد میر اور سلیم صافی ایسے آل شریف کے دیرینہ” مائیکی” اور قلمی جاروب کشوں نے خوشی سے پاگل ہوکر اندھا دھند دشنام و اتہام کی گرد اڑانا شروع کی ۔ عوام جانتے ہیں کہ 21 ویں صدی کے یہ گوئبلز جھوٹ بول رہے ہیں کہ عمران خان نے سائفر گم کردیا ۔ سائفر کہاں گم ہوا ؟ اس کی کاپی سپیکر آفس میں موجود ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دفتر خارجہ کے پاس موجود ہے۔ مارچ 2022 ء کے آخری ایام میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں سائفر پر گفتگو ہوئی ۔ اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجواہ اور بری ، بحری اور فضائی افواج کے سربراہ بھی شریک ہوئے ۔ مارچ کے آخری ایام میں ہونے والے اس اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔
کہا جا رہا ہے کہ غیر مصدقہ بیان سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے کسی میجسٹریٹ کا روبرو دیا ہے ۔ یہ بیان 2 صفحات پر مشتمل ایک بے رطب و یابس تحریر ہے۔ اس تحریر پر نہ تو اعظم خان کے دستخط ہیں ، نہ نشان انگوٹھا ہے اور نہ ہی اس کی شناخفی کارڈ کی مصدقہ کاپی لف ہے۔ یہ بھی نہیں بتایا جا رہا کہ اعظم خان کس میجسٹریٹ کے سامنے ہیش ہوئے ۔ 164 کے بیان کے لیے ضروری ہے کہ کسی زیر سماعت مقدمہ کی کارروائی کے دوران ایسا بیان ریکارڈ کیا جائے۔ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ سائفر کے حوالے تاحال ملک کی کسی بھی عدالت میں کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔ تاہم لفافی اینکرز کے شوز میں مبینہ الکحلک پیشینٹ فیصل واڈا یا واڈکا اس حوالے سے ” عالمانہ فاضلانہ رائے” لی جا رہی ہے ۔۔۔۔ وہ عناد اور کینے میں لتھڑی اپنی غلیظ اور رکیک رائے ہائرڈ اینکرز کے پروگراموں میں پیش کر کے جزوقتی داد-سخن وصول کرے گا۔ بعض نفسیاتی مرید ہیرو بننے اور منفرد نظر آنے کے شوق میں خود کشی سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر ٹائیں ٹائیں فش ۔ فیصل واڈا کو جھوٹ بولنے میں ید-طولی حاصل ہے۔ وہ تو سائفر کے معاملے میں ایسے رائے دیتا ہے ، جیسے وہ سائفر سپیشلسٹ ہے۔
ماہرین قانون کے نزدیک پولیس کی کسٹڈی میں اعظم خان کے مبینہ اعترافی بیان کی قانون اور عدالتی نظائر کی روشنی میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس بیان میں بہت سے ابہام ، اسقام اور جھول پائے جاتے ہیں۔ اعظم خان کی مبینہ اعترافی پریس ریلیز تو ریلیز ہو گئی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تادم تحریر اعظم خان کے ریلیز ہونے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔ وہ لاپتہ ہیں ۔ کل رانا ثناء نے یہ کہا تھا کہ اعظم خان بارے کچھ پتہ نہیں ، وہ کہاں ہے ؟ آج دوران پریس کانفرنس رانا صاحب نے بتایا کہ وہ کسی ادارے کی تحویل میں نہیں تھے ۔ اپنے ایک دوست کے ہاں تھے۔ وہاں سے وہ میجسٹریٹ صاحب بہادر کے ہاں پہنچے اور اسے اعترافی بیان تھما کر چلتے بنے۔
یہ سب ناٹک عمران خان کی ٹک ٹاک ایپ پر عالمی سطح پر مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے کے عظیم معرکے کی خبروں کی چکا چوند کو مدھم کرنے کے لیے رچایا گیا ۔ اس پر پی ڈی ایم اور اس کے سرپرست انگشت بدنداں تھے کہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ایک معروف ادارے کے پاکستانی ووٹ بنک کے مطبوعہ اس سروے نے کہ پاکستان کے 76 فیصد سے زائد ووٹرز عمران خان کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سروے نے بھی پی ڈی ایم قیادت کو خائف و سراسیمہ کر دیا۔ انہوں نے خان کی شاندار عوامی محبوبیت ، مقبولیت اور قبولیت کے تأثر کو زائل کرنے کے لیے اعترافی بیان کی پریس ریلیز کا سنسنی خیز شوشا اور دھماکہ ریز سموک بم چھوڑ دیا ۔۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعظم خان اپنے دوست کی قید سے رہا ہو کر اپنے پیاروں کے پاس گھر پہنچ چکے ہیں ؟
رانا ثناء کے بیان کے برعکس بعض ثقہ صحافیوں کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ اعظم خان سے یہ بیان پولیس حراست میں تشدد کر کے حاصل کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ ایسے بیانات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ اعلیٰ عدالتیں انہیں درست تسلیم نہیں کیا کرتیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ اعظم خان کے مبینہ دوست نے اسے ایک ماہ پانچ دن اغوا کیے رکھا ۔ اغوا برائے تاوان تو سنا تھا کہ اب اغوا برائے بیان کا نیا شگوفہ اعظم خان کے دوست نے متعارف کرا دیا:
گنبد-نیلو فری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ بدلتا ہے کیا
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا