اہم خبریںمشرق وسطیٰ

لبنانی کابینہ کا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ، حزب اللہ کا شدید ردعمل: "یہ گناہ کبیرہ ہے” — خطے میں کشیدگی اور داخلی سیاسی بحران کا خطرہ بڑھ گیا

"ہم اس فیصلے سے اس طرح نمٹیں گے جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ فیصلہ صرف اور صرف اسرائیل کی خدمت میں کیا گیا ہے۔"

بیروت (عالمی ایجنسیاں + نمائندہ خصوصی)
لبنان میں ایک نیا سیاسی و عسکری بحران جنم لیتا دکھائی دے رہا ہے، جب لبنانی کابینہ نے ملک میں ہتھیاروں پر صرف فوج کی اجارہ داری قائم کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا، جس کے تحت کسی بھی جماعت، گروہ یا ملیشیا کو اسلحہ رکھنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا براہِ راست اثر حزب اللہ پر پڑتا ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ صرف لبنان کی سب سے بڑی مسلح تنظیم ہے بلکہ خطے میں ایران کی حلیف سمجھی جاتی ہے۔

حزب اللہ کا سخت ردعمل: "یہ فیصلہ گناہ کبیرہ ہے”

لبنانی کابینہ کے فیصلے پر حزب اللہ نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنے سخت ردعمل میں کہا کہ یہ اقدام "گناہ کبیرہ” کے مترادف ہے۔ حزب اللہ کے مطابق یہ فیصلہ امریکی دباؤ اور "اسرائیلی مفادات” کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا، جس کا مقصد لبنان کی مزاحمتی قوت کو کمزور کرنا ہے۔

حزب اللہ نے بیان میں واضح کیا:

"ہم اس فیصلے سے اس طرح نمٹیں گے جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ فیصلہ صرف اور صرف اسرائیل کی خدمت میں کیا گیا ہے۔”

کابینہ کا فیصلہ: فوج کو مکمل اختیار، ہتھیاروں پر مکمل اجارہ داری کا حکم

منگل کے روز ہونے والے کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے اندر تمام ہتھیار صرف لبنانی فوج کے کنٹرول میں ہوں گے اور کسی بھی مسلح گروہ، چاہے وہ حزب اللہ ہو یا کوئی اور، کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس مقصد کے لیے فوج کو باقاعدہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایک قومی منصوبہ اور روڈ میپ تیار کرے، جس کے تحت آئندہ مہینوں میں حزب اللہ جیسے گروہوں کو غیر مسلح کیا جا سکے۔

امریکی دباؤ اور اسرائیلی خطرہ

ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ امریکہ کی طرف سے حالیہ سفارتی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا، جہاں واشنگٹن نے بیروت سے عوامی سطح پر کمٹمنٹ مانگی تھی کہ وہ حزب اللہ کے عسکری کردار کو محدود کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گا۔ امریکہ نے اشارہ دیا تھا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں لبنان کو مزید معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جب کہ اسرائیل کی جانب سے فوجی کارروائیوں کے خطرات بھی موجود تھے۔

لبنانی حکومت کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ بین الاقوامی مطالبات کو نظر انداز کرتی ہے تو اسرائیل اپنے حملے مزید شدت کے ساتھ شروع کر سکتا ہے، جیسا کہ ستمبر 2024 کی جنگ کے دوران دیکھا گیا تھا۔

شیعہ وزراء کا کابینہ اجلاس سے واک آؤٹ

جب اجلاس کے دوران حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے مسودے پر غور شروع ہوا تو شیعہ وزراء نے احتجاجاً واک آؤٹ کر دیا۔ یہ علامتی مگر اہم اقدام تھا، جس نے ثابت کر دیا کہ لبنان کی سیاسی تقسیم اب صرف نظریاتی نہیں بلکہ انتہائی حساس اور فرقہ وارانہ بنیاد پر بھی جا چکی ہے۔

حزب اللہ: حکومت سے بات چیت پر آمادہ، مگر فیصلے کو مسترد

باوجود اس کے کہ حزب اللہ نے اس فیصلے کو "مکمل طور پر مسترد” کر دیا ہے، اس نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ وسیع تر قومی سلامتی حکمتِ عملی پر حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنے حامیوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے، جس کا مقصد ممکنہ عوامی ردعمل اور بدامنی کو روکنا ہو سکتا ہے۔

صدارتی محل میں ہونے والے اجلاس کی اہمیت

یہ پہلا موقع ہے کہ لبنانی کابینہ نے صدارتی محل میں بیٹھ کر باقاعدہ طور پر حزب اللہ کے عسکری کردار پر غور کیا۔ یہ ایک تاریخی تبدیلی ہے، کیونکہ ماضی میں حزب اللہ کو لبنانی معاشرے کا "مزاحمتی ستون” سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی دباؤ نے حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ اس معاملے پر سخت موقف اپنائے۔

آئندہ کا لائحہ عمل: جمعرات کو فیصلہ کن اجلاس

کابینہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعرات کے روز دوبارہ اجلاس کرے گی، جس میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے عملی حکمتِ عملی، اقدامات اور ٹائم فریم پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق یہ اجلاس لبنان کے سیاسی مستقبل اور داخلی سلامتی کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہوگا۔


تجزیہ: خطے میں ایک نئی کشیدگی کی شروعات؟

لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوشش نہ صرف داخلی سیاسی توازن کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ خطے میں ایک نئی عسکری کشیدگی کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ ایران، جو حزب اللہ کا اہم پشت پناہ ہے، اس فیصلے پر کس ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے، یہ آنے والے دنوں میں واضح ہوگا۔

اسی طرح، اگر اسرائیل نے حزب اللہ کو کمزور دیکھ کر فوجی کارروائیاں تیز کر دیں تو لبنان ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں جا سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button