پاکستان میں مذہبی تصادم کا آغاز
کہتے ہیں برصغیر کی تاریخ میں عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے عظیم جلسے کسی نے بھی نہیں کئے اور الیکشن میں حصہ لیا تو پاکستان کی تاریخ میں ان سے کم ووٹ بھی کسی دوسرے بدقسمت کو نہیں ملے ۔
توہین مذہب کی آڑ میں گھیراؤ، جلاؤ اور خون کی ہولی کھیلنے کی روایات کی بنیاد عطا اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری نے رکھی۰
دونوں فن تقریر میں بے مثال اور فن خطابت میں باکمال تھے- اردو زبان اور لاکھوں لوگوں کے جذبات سے کھیلنا دونوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۰
کہتے ہیں برصغیر کی تاریخ میں عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے عظیم جلسے کسی نے بھی نہیں کئے اور الیکشن میں حصہ لیا تو پاکستان کی تاریخ میں ان سے کم ووٹ بھی کسی دوسرے بدقسمت کو نہیں ملے ۔
دونوں دوسرے ابن الوقت سیاسی لیڈروں کے آلہ کار تھے۰
شاہ جی نے 1953 میں لاہور میں خون کی وہ ہولی کھیلی کہ رب کی پناہ ۰ حکومت نے فسادات روکنے کیلئے مجبوراً جنرل اعظم خان کی زیر انتظام پاکستانی تاریخ کا اولین مارشل لا لگایا ۰ اور یوں فوج کو سول اختیارات کا چسکا لگا۰
فسادات کے بعد جسٹس منیر اور جسٹس ایم آر کیانی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنی جس کا نتیجہ منیر کمیشن رپورٹ کی شکل میں قابل مطالعہ ہے۰ فاضل جج صاحبان کے سامنے پیش ہونے والے پاکستان کے قابل فخر علمائے کرام مسلمان کی تعریف کرنے میں ناکام رہے۰ کمیشن نے سوال کیا “ مسلمان کون ہے؟” جواب میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام و اہلحدیث اور دیوبند و بریلوی مسلک کے قائدین و علماء ایک دوسرے کو تکنے لگے۰
کمیشن سے درخواست کی کہ ایک گھنٹہ دیں ہم باہر جاکر مسلمان کی تعریف پر متفق ہوکر اتے ہیں۰
جسٹس منیر نے کہا “ حضرات علمائے کرام ، ہم نے چودہ سو سال دئیے تھے۰ آپ ابھی تک مسلمان کی تعریف میں ناکام ہیں۰ چلیں ایک گھنٹہ اور لیں!”
ایک گھنٹہ بعد مولوی صاحبان کمرہ عدالت لوٹے تو کسی کی پگڑی نہیں، کسی کی ٹوپی پھاڑی گئی ہے ۰۰۰اور کسی ڈاڑھی نیم ندارد۰ ایک مسخرگی کا منظر تھا ۰ معلوم ہوا کہ باہر ہر ایک کو دوسرے کے مسلمان کی تعریف کفر لگی۰ لڑنے لگے۰ کمیشن کو پیش ہوئے تو احمدیوں کو کافر قرار دینے کے بجائے ایک دوسرے کو کافر قرار دیا تھا۰
مہینے کی مزید مہلت مانگی۰
جسٹس منیر نے پھر کہا:”کیا ایک تعریف کیلئے چودہ سو سال کافی نہیں تھے؟”
خیر پھر مہلت دی۰
مہینے بعد علمائے کرام کمیشن کے سامنے حاضر ہوئے تو جمعیت والے
جماعت پر کفر کا فتویٰ لائے تھے اور بریلوی دیوبندیوں پر۰
کمیشن نے سب کے دعوی مسترد کئے ۰ کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ
” سارا معاملہ سیاسی تھا۰ میاں ممتاز دولتانہ نے مرکز میں خواجہ ناظم الدین حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی غرض سے عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری کے ذریعے مذہبی عناصر کو اکسایا ”
جو بھی تھا مستقبل میں مارشلاؤں اور توہین مذہب کے نام سے خونی ہنگاموں کا راستہ کھل گیا۰ شاہ و شورش نے ایک منظم و مستقل شدت پسندی کی بنیاد رکھی جو آج پوری طاقت سے ملک پر مسلط ہے۰”