سوڈان: RSF نیم فوجی دستے امریکہ کی تجویز پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر متفق
الفشر پر قبضہ سوڈان میں جاری خانہ جنگی کی ایک اور سنگین حقیقت ہے، جہاں مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور شہریوں کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے
خرطوم: سوڈان کی نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے امریکہ کی تجویز پر اتفاق کیا ہے، جس کے بعد سوڈان کے مغربی دارفور کے علاقے میں جاری تنازع میں ممکنہ طور پر ایک اہم تبدیلی کی امید پیدا ہوئی ہے۔ اس فیصلے کا اعلان آر ایس ایف کے ایک بیان میں کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنگ بندی کی شرائط پر اتفاق کر لیا ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں انسانی امداد کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب RSF نے سوڈان کے شمال مغربی شہر الفشر پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد شہر میں شدید فاقہ کشی اور قحط کی صورتحال نے عوامی زندگی کو متاثر کیا۔
الفشر پر قبضہ: سوڈان کے تنازعے میں نیا موڑ
آر ایس ایف کی قیادت میں جنرل محمد حمدان دگالو کی فورسز نے 18 ماہ تک الفشر شہر کا محاصرہ کرنے کے بعد، بالآخر شہر پر مکمل قبضہ کر لیا۔ الفشر پر قبضہ سوڈان میں جاری خانہ جنگی کی ایک اور سنگین حقیقت ہے، جہاں مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور شہریوں کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔ یہ شہر مغربی دارفور کے علاقے میں واقع ہے، جو اس وقت سوڈان کے جنگ زدہ علاقوں میں سے ایک ہے۔
الفشر شہر پر قبضے کے بعد، RSF نے یہ اعلان کیا کہ وہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے امریکہ کی تجویز پر رضامند ہو گئے ہیں۔ امریکہ نے عالمی برادری کے دباؤ کے تحت اس جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی، تاکہ قحط اور دیگر انسانی مسائل سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی امداد فراہم کی جا سکے۔
انسانی امداد کی فراہمی کے لیے جنگ بندی
آر ایس ایف نے کہا کہ اس جنگ بندی کے ذریعے سوڈان کے متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر انسانی امداد پہنچائی جائے گی، جس کا مقصد مقامی آبادی کو قحط، بھوک اور صحت کی سہولتوں کی کمی جیسے مسائل سے بچانا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بار بار سوڈان میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے جنگ بندی کی اپیل کرتے رہے ہیں، لیکن جنگی گروپوں کی جانب سے امدادی سامان کی منتقلی میں رکاوٹیں آتی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ الفشر اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں قحط کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، اور عالمی بھوک مانیٹر نے وہاں کی صورتحال کو "انسانی بحران” قرار دیا ہے۔ سوڈان کے اس شہر میں کئی ماہ سے امدادی سامان نہیں پہنچ سکا، جس کے نتیجے میں یہاں کی عوام کو سخت تکالیف کا سامنا ہے۔
سوڈان کی فوجی حکومت کا ردعمل
اس خبر کے بعد، سوڈان کی فوجی قیادت والی حکومت نے ابھی تک اس تجویز پر کوئی رسمی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ RSF اور سوڈان کی مرکزی حکومت کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے، اور دونوں کے درمیان مسلسل فوجی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ آر ایس ایف کا قیام 2013 میں ہوا تھا، اور یہ فوجی گروپ، سوڈان کی مرکزی حکومت کے خلاف ایک اہم طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔
جنرل محمد حمدان دگالو کی قیادت میں، آر ایس ایف نے ملک بھر میں اپنی موجودگی کو مستحکم کیا ہے اور کئی علاقوں میں قبضہ کر لیا ہے، جس کے باعث سوڈان میں امن کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
بین الاقوامی ردعمل: آر ایس ایف کی کارروائیوں پر تنقید
آر ایس ایف کو اپنے فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی خبریں ملنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔ حقوقِ انسانی کے گروپوں نے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ واقعات بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ آر ایس ایف نے ان ہلاکتوں کی تردید کی ہے، تاہم اس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ "خلاف ورزیاں” کچھ افراد کی جانب سے کی گئی ہیں، اور ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
اس کے باوجود، بین الاقوامی برادری نے ان خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ سوڈان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لیے فوری طور پر مؤثر اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
اقوام متحدہ کا کردار اور امداد کی فراہمی
اقوام متحدہ نے سوڈان میں جاری انسانی بحران کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور عالمی برادری سے سوڈان میں جاری جنگ اور بحران کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں اور ان کی زندگیاں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی امدادی ایجنسیوں نے کہا ہے کہ وہ سوڈان میں جنگ بندی کی صورتحال کے بعد امدادی کارروائیوں کی تیاری کر رہی ہیں، اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ تمام متاثرہ افراد تک امداد پہنچ سکے۔
خطرہ: جنگ بندی کے باوجود حالات کی شدت میں اضافہ
اگرچہ آر ایس ایف اور امریکہ کے درمیان انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی بات چیت شروع ہو چکی ہے، لیکن سوڈان میں عمومی طور پر جنگ بندی کا ماحول ابھی تک قائم نہیں ہو سکا ہے۔ سوڈان میں موجود فوجی گروہ مسلسل ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں، اور ان کی جانب سے کوئی بھی باضابطہ جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، جنگ بندی کی یہ تجویز ایک مثبت قدم ہے، جو امید کی کرن بن سکتی ہے کہ سوڈان میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے حالات میں بہتری آ سکے۔
مستقبل کی توقعات
سوڈان میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی برادری مسلسل کوششیں کر رہی ہیں، اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی تجویز سے ایک نیا امکان پیدا ہوا ہے کہ مستقبل قریب میں سوڈان کے عوام کے لیے کچھ ریلیف فراہم کیا جا سکے گا۔ تاہم، اس جنگ کی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے، سوڈان میں امن کی بحالی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں فوجی گروپوں کے درمیان بات چیت اور سوڈان کے مرکزی حکومتی اداروں کے درمیان معاہدوں کی ضرورت شامل ہے۔
اس دوران، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے سوڈان میں جاری انسانی بحران کو مزید شدت سے دیکھ رہے ہیں اور وہاں کی عوام کی مدد کے لیے بھرپور تعاون کی توقع رکھتے ہیں۔


