اسلام آباد پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی):پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اسد قیصر، علی محمد خان اور بیرسٹر سیف نے اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی۔
جمعرات کو ہونے والی اس ملاقات میں سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی علی محمد خان، بیرسٹر محمد علی سیف اور جنید اکبر شامل تھے۔
ملاقات میں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان سے ان کی خوش دامن کے انتقال پر تعزیت کی۔
ملاقات کے بعد سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’یہ ایک غیر سیاسی ملاقات تھی جس میں فاتحہ خوانی کے علاوہ کسی موضوع پر بات نہیں ہوئی۔‘
’ہم سب ایک علاقے کے رہنے والے ہیں، غم اور خوشی میں شرکت کرنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور یہ ملاقات پارٹی کی رضامندی سے کی گئی۔‘
دوسری جانب تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان ایڈووکیٹ معظم بٹ نے اس ملاقات کو سیاسی میٹنگ قرار دیا۔
انہوں نےبتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطے قائم کیے جا رہے ہیں اور آج کی ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی این آر او نہیں چاہتی بلکہ کوشش کر رہی ہے کہ الیکشن کے لیے سیاسی ماحول کو سازگار بنایا جائے۔‘
معظم بٹ کے مطابق ’مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کا مقصد بھی یہی تھا کہ فوری الیکشن کے لیے انہیں قائل کیا جائے کیونکہ جمہوریت کا واحد حل انتخابات ہیں۔‘
ترجمان پی ٹی آئی ایڈووکیٹ معظم بٹ کے مطابق ’صدر پاکستان بھی تمام سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔‘
’جمہوریت کے لیے کسی سیاسی جماعت کے لیڈر سے بات چیت کرنا کوئی بُری بات نہیں ہے، اس طرح کی ملاقاتیں دیگر سیاسی پارٹیوں سے بھی کی جائیں گی۔‘
فاتحہ خوانی کا سیزن شروع ہو چکا ہے
پشاور کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار کاشف الدین کے مطابق مولانا فضل الرحمان سے ملاقات سیاسی موسم میں تبدیلی کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس سے پہلے بھی سیاست میں فاتحہ خوانی کے نام پر اہم سیاسی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔‘
’مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد کمرے کے اندر بھی الگ سے میٹنگ ہوئی ہے، اس میں کیا باتیں ہوئیں اس کی تفصیل چند روز میں سامنے آجائے گی۔‘
کاشف الدین کی رائے کے مطابق ہم مفاہمت کی بازگشت سن رہے تھے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ عملی طور پر پی ٹی آئی نے اس پر کام شروع کردیا ہے۔
’پی ٹی آئی اپنی پالیسی کی وجہ سے بالکل ایک سائیڈ پر ہوگئی تھی، اسی لیے اب وہ کوشش کر رہی ہے کہ پالیسی میں نرمی لاکر تمام جماعتوں سے گفت و شنید کی جائے۔‘