پاکستان کی سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو اگلے عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنے پر صدر مملکت سے مشاورت کے لیے کہا ہے۔
جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو کسی کو یہ گمان نہ تھا کہ اگلے عام انتخابات کی تاریخ سامنے آ جائے گی۔
عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے اگلے عام انتخابات 11 فروری کو کرانے کی تاریخ دی تو کمرۂ عدالت میں بیٹھے 30 رپورٹرز اپنی نوٹ بُکس اُٹھائے بریکنگ نیوز دینے کے لیے دروازے کی جانب دوڑے۔
اِس ہلچل کو دیکھ کر چند لمحوں کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اُن کے ساتھی ججز جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی حیران رہ گئے۔
دن ساڑھے گیارہ بجے کے بعد شروع ہونے والی سماعت میں سب سے پہلے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے تفصیلی دلائل دیے۔
اُن کے دلائل کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو انتخاب کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے خط لکھ کر اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’اب تمام تر ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے کہ وہ آئین کے مطابق اپنا کام کرے۔‘
چیف جسٹس نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ ’اس کاغذ کے ٹکڑے پر سب کے دستخط ہوں گے تاکہ کوئی اِدھر اُدھر نہ ہو۔‘
وکیل سجیل سواتی نے عدالتی وقفے کے بعد سپریم کورٹ کو بتایا کہ صدر مملکت سے رابطہ قائم کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی آئینی بحث میں پڑے بغیر معاملے کو آگے لے جایا جا سکے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ ’اس معاملے پر اٹارنی جنرل کو بھی آن بورڈ لیں۔‘
چیف جسٹس نے روسٹرم پر موجود اٹارنی جنرل منصور عثمان سے کہا کہ وہ صدر سے فون پر رابطہ کر کے اُنہیں وضاحت سے بتائیں کہ عدالت میں کیا ہوا تاکہ الیکشن کمیشن کو آسانی ہو۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ایک موقع پر وکیل فاروق نائیک سے پوچھا کہ ’کیا صدر کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے؟‘ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ آئین و قانون کے مطابق ایسا لازم نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’عام انتخابات کے لیے دی گئی تاریخ پتھر پر لکیر ہو گی اس میں کوئی ردّوبدل نہیں کر سکے گا اور عدالت اس پر عمل کرائے گی۔‘
چیف جسٹس نے روسٹرم پر موجود پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر اور پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک سے ازراہِ مذاق کہا کہ ’دونوں کو ایک ساتھ کھڑا کر دیا ہے ایسا نہ ہو کہ کل شہ سرخی لگ جائے کہ اتحاد ہو گیا ہے۔‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اتحاد تو نظر آ رہا ہے۔‘
چیف جسٹس نے وکلا اور الیکشن کمیشن کے حکام سے کہا کہ ’پیچیدگیوں میں جائے بغیر عدالت اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے کیونکہ دیگر ایشوز میں اُلجھے تو اُن کے نتائج ہوں گے۔‘
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے الیکشن کی تاریخ کے اعلان پر عدالتی روسٹرم پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اِٹس آ گریٹ ایچیومنٹ!‘
سماعت مکمل ہوئی تو حالیہ عدالتی تاریخ میں ایک منفرد صورتحال اُس وقت دیکھنے کو ملی جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکمنامہ لکھوایا، پھر اس کو عدالت میں ہی ٹائپ کروا کر پرنٹ نکلوایا اور اس کی پروف ریڈنگ کرائی۔
اس دوران اُن کے ساتھ بینچ میں موجود ججز اور روسٹرم پر کھڑے وکلا انتظار کرتے رہے۔
اس کے بعد عدالت کی آج کی سماعت کے حتمی حکم نامے پر تینوں ججز نے کمرہ عدالت میں ہی دستخط کیے اور اس کی نقول وہاں موجود فریقوں کے وکلا کو فراہم کی گئیں۔
یہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ عدالت کے اندر ہی آرڈر پرنٹ کروا کر ججز دستخط کریں۔