لاہور کے گرین ٹاؤن کے علاقے میں سہ پہر کے قریب پولیس کی ایک گاڑی اپنے معمول کے گشت پر تھی۔ گاڑی کی رفتار سست تھی اور اس میں چھ پولیس اہلکار سوار تھے۔
باگڑیاں چوک کے قریب ایک شخص سڑک پر پیدل چلتا ہوا آرہا تھا۔ وہ اپنے حلیے سے بظاہر ایک عام سا شخص تھا تاہم جیسے ہی اس کی نظر سامنے سے آتے ہوئے پولیس کے ڈالے پر پڑی تو وہ ٹھٹک گیا۔
اس نے چند ہی سیکنڈز میں فیصلہ کیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ لیکن اسی سوچ بچار میں اس سے ایک غلطی ہو گئی اور وہ ایک دفعہ رک کر الٹے پاؤں چل پڑا۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ پولیس وین میں بیٹھا ایک اہلکار اتفاق سے اس کو باریک بینی سے پہلے رکتے اور پھرے چند قدم پیچھے چلتا دیکھ چکا ہے۔
اس شخص نے اب فیصلہ کر لیا تھا اور اس نے دوڑ لگا دی لیکن عین اسی وقت پولیس اہلکاروں نے بھی گاڑی بھگائی اور پھر چند ہی لمحوں میں اسے روک لیا۔
پولیس اہلکار گاڑی سے نیچے اترے اور اس شخص کی تلاشی لی تو اس سے ایک عدد پستول برآمد ہوا جس کا لائسنس اس کے پاس نہیں تھا۔
چند ایک سوالوں سے ہی پولیس پارٹی کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی نارمل شخص نہیں ہے۔ لیکن وہ اب پوری طرح سے پولیس کی گرفت میں آ چکا تھا۔ تھانہ گرین ٹاؤن میں درج ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق اس شخص کا نام شیراز بٹ تھا۔
جب پولیس اہلکاروں نے اس سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے ارد گرد علاقے کا جائزہ لیا تو قریب ہی ایک ویران پلاٹ میں کچھ بیگ پڑے ہوئے ملے۔
لاہور کی آرگنائزڈ کرائم برانچ کے ایس پی آفتاب پھلروان نےبتایا کہ ’شیراز بٹ نے بیگ دیکھتے ہی فر فر بتانا شروع کر دیا کہ ان بیگز میں اسلحہ ہے۔ جب ان تمام بیگز کو کھولا گیا تو ان میں بھاری مقدار میں اسلحہ تھا۔ ہزاروں راؤنڈز بھی تھے اور مختلف قسم کی بندوقیں بھی تھیں۔ اسی وقت پولیس کی مزید نفری طلب کر لی گئی اور اس علاقے کا سرچ آپریشن کیا۔ اسی دوران شیراز بٹ سے موقع پر ہی تفتیش بھی کی جا رہی تھی۔‘
ایف آئی آر کے مطابق شیراز بٹ نے پولیس کو بتایا کہ اس نے اسلحہ پشاور سے منگوایا ہے اور اس اسلحے کی کھیپ پہنچانے والا شخص تھوڑی دیر پہلے ہی یہاں اتار کر گیا ہے اور ان کی اپنی گاڑی یہ اسلحہ یہاں سے اٹھانے کے لیے بس پہنچنے ہی والی ہے۔ تاہم وہ گاڑی وہاں نمودار نہیں ہوئی اور پولیس شیراز بٹ کو لے کر تھانے آ گئی۔
پولیس کے مطابق شیراز بٹ کا تعلق سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ سے ہے۔ ابتدائی تفتیش کے بعد ملزم کو آرگنائزڈ کرائم برانچ کے حوالے کر دیا گیا اور پھر دوران تفتیش پولیس کو ایسے شواہد ملے جس نے صورت حال کو ہی بدل کر رکھ دیا۔
شیراز بٹ سے تفتیش کرنے والے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’شیراز اور اس کا بھائی حسنین دونوں اجرتی قاتلوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ سیالکوٹ میں گزشتہ مہینے ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے مولانا شاہد لطیف کے اجرتی قاتلوں کو بھی اسلحہ انہوں نے ہی فراہم کیا تھا۔ اس مقدمے میں یہ ایک بڑا بریک تھرو ہے۔ کیونکہ ابھی تک کی تفتیش میں مولانا شاہد کے قتل کے تانے بانے بیرونی قوتوں سے ملتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’شیراز بٹ اور اس کے بھائی نے صرف مولانا شاہد کے اجرتی قاتلوں کو اسلحہ فراہم نہیں کیا بلکہ اب مزید تفتیش میں اور چیزیں بھی سامنے آ رہی ہے۔ اور یہ لوگ بڑے پیمانے پر بلیک مارکیٹ میں اجرتی قاتلوں کو اسلحہ فراہم کرتے رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ مہینے 11 اکتوبر کو ڈسکہ کی ایک مسجد میں صبح کی نماز کے وقت دو نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے امام مسجد مولانا شاہد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس سے پہلے آئی جی پنجاب نے دعویٰ کیا تھا کہ مولانا شاہد کے مبینہ قاتلوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف مولانا شاہد کا شمار ان افراد کی فہرست میں ہوتا تھا جو انڈیا کو انتہائی مطلوب ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ شیراز بٹ کے دوسرے بھائی حسنین کی گرفتاری کے لیے پولیس مختلف جگہوں پر ریڈ کر رہی ہے اور اسے بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔