’آل دا لائٹ وی کین ناٹ سی‘: اندھیرے میں راستہ دِکھاتی اُمید کی کرن
یہ وہ روشنی بھی دیکھنے میں مدد دیتا ہے جو انسان کُھلی آنکھوں سے بھی نہیں دیکھ پاتا اور یہ اُمید کی روشنی ہوتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی آنکھیں کھولے اور اس روشنی سے استفادہ کرے، اس سے پہلے کہ اس کی آنکھیں بند ہو جائیں۔‘
’انسانی دماغ ایک ایسی زبردست اور عجیب شے ہے جو خود کھوپڑی کے پنجرے میں بند گُھپ اندھیرے میں ایک مادے میں تیرتا رہتا ہے لیکن انسان کو دنیا کی تمام روشنی دیکھنے میں مدد کرتا ہے۔
یہ وہ روشنی بھی دیکھنے میں مدد دیتا ہے جو انسان کُھلی آنکھوں سے بھی نہیں دیکھ پاتا اور یہ اُمید کی روشنی ہوتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی آنکھیں کھولے اور اس روشنی سے استفادہ کرے، اس سے پہلے کہ اس کی آنکھیں بند ہو جائیں۔‘
یہ مکالمہ ہے ویب سیریز ’آل دا لائٹ وی کین ناٹ سی‘ کا اور یہی اس سیریز کا مرکزی خیال بھی ہے۔
کہانی فرانس کے ساحلی قصبے سینٹ مالو میں دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں فلمائی گئی ہے جہاں جرمن فوج ’ورماخت‘ اس قبضے پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور امریکی جنگی جہاز ان کو پسپا کرنے کے لیے بمباری کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے پیرس پر جرمن فوج کے قبضے کے وقت وہاں کے عجائب گھر کا رکھوالا ’ڈینئیل‘ اپنی نابینا بیٹی ’میری‘ کے ساتھ فرار ہو کر سینٹ مالو اپنے چچا ’ایٹیان‘ کے گھر پہنچ جاتا ہے اور اپنے ساتھ ایک قیمتی ہیرا بھی لے آتا ہے تا کہ وہ جرمن فوج کے ہاتھ نہ لگ سکے۔
دوسری طرف ایک جرمن فوجی ’ورنر‘ کی کہانی ہے جو ریڈیو کا ماہر ہے۔ اس میں اور ’میری‘ کے کردار میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ دونوں ریڈیو کی مخصوص فریکوئنسی پر نشر ہونے والے ایک پروفیسر کے پروگرام کو بچپن سے سنتے آ رہے ہیں۔
کہانی ’میری‘ کے گرد گھومتی ہے جو بچپن سے نابینا ہے لیکن اس کے والد ’ڈینئیل‘ نے اسے ایسی تربیت دی ہے کہ وہ آنکھیں رکھنے والوں سے بہتر ادراک رکھتی ہے۔
یہ ایسی با ہمت لڑکی کا کردار ہے جس کے باپ نے بچپن سے اس کی معذوری کو بوجھ بننے نہیں دیا بلکہ ایسی تربیت کی کہ نابینا ہونے کے باوجود وہ پورا علاقہ نہ صرف پیدل گھوم سکتی ہے بلکہ اسے پارک اور بیکری کی سمت بھی معلوم ہے۔
اس تربیت کی وجہ سے ’میری‘ کی سُننے کی حِس اس قدر بہتر ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے آس پاس ہونے والی جُنبش کو بھی جانچ لیتی ہے۔ یہی مہارت ایک موقع پر اس کی جان بھی بچاتی ہے جسے وہ اپنے ڈائیلاگ میں ایسے بیان کرتی ہے کہ ’ہر چیز کی ایک آواز ہوتی ہے، بس آپ کو دھیان سے سُننا ہے۔‘
’ایٹیان‘ کا کردار فرانسیسی مزاحمتی تحریک میں پیش پیش ہے اور اپنے ریڈیو کے ذریعے اتحادی افواج کو خفیہ پیغامات دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن ڈینئیل اور ایٹیان کی گمشدگی کے بعد یہ بیڑا ’میری‘ نے اُٹھایا ہے۔
اسے یقین ہے کہ اتحادی فوج ایک دن فرانس کو جرمنی کے تسلط سے آزاد کروا لے گی۔ سینٹ مالو کے قصبے پر ہر رات بموں کی بارش ہوتی ہے اور ’ورنر‘ کی مدد سے ریڈیو فریکوئنسی کے ذریعے ’میری‘ کا پتہ چلاتے جرمن فوجی ہر جگہ اس کی بُو سونگھتے پھر رہے ہیں لیکن ’میری‘ پُرعزم ہے اور جان کی پرواہ کیے بغیر اسی قصبے میں موجود گھر میں ریڈیو سے وہ خفیہ پیغامات بھیجنے سے پیچھے نہیں ہٹتی۔
اب ایک جرمن فوجی افسر ’رائین ہولڈ‘ اس قیمتی ہیرے کی تلاش میں ’ڈینئیل‘ اور ’میری‘ کو ڈھونڈ رہا ہے جبکہ ’ورنر‘ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہے کہ وہ لڑکی کون ہے جو اب پروفیسر کی جگہ اسی فریکوئنسی پر بات کرتی سنائی دیتی ہے۔
یہ ویب سیریز امریکی ادیب انتھونی ڈور کے اسی نام پر مبنی ناول پر بنائی گئی ہے۔ یہ ناول انھوں نے سال 2014 میں لکھا تھا اور اس ناول کو پلٹزر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ ناول کی کچھ تفصیلات کو ویب سیریز کے لیئے بدل دیا گیا ہے تاہم باقی کہانی کو ویسے ہی فلمایا گیا ہے۔
نئی امریکی اداکارہ ’آریا میا‘ نے اس ویب سیریز میں ’میری‘ کا کردار ادا کیا ہے جو سینکڑوں نئی اداکاراؤں کے آڈیشن لینے کے بعد ان کو ملا جس میں انھوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
’ورنر‘ کا کردار جرمن اداکار لوئس ہوفمین نے ادا کیا ہے جو اس سے پہلے نیٹ فلیکس ہی کی ویب سیریز ’ڈارک‘ میں مرکزی کردار ادا کر چکے ہیں۔
برطانوی اداکار ہیو لاری جو مشہور ویب سیریز ’ہاؤس‘ کے ’ڈاکٹر گریگری ہاؤس‘ کے کردار سے شہرت یافتہ ہیں اس کہانی میں ’ایٹیان‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں جو پہلی عالمی جنگ کا ہیرو بھی ہے۔ اداکار مارک رفالو ’ڈینئیل‘ کے کردار میں نظر آئیں گے جو کامک کردار ’دی ہلک‘ کی وجہ سے مشہور ہیں۔
نیٹ فلیکس کی اس ویب سیریز کے ہدایت کار شان لیوی ہیں جو اس سے پہلے بہت سی شاندار فلموں کی ہدایات دے چکے ہیں جن میں ’نائٹ ایٹ دا میوزیم‘ اور ’ڈیڈ پول‘ بھی شامل ہیں۔ فرانس اور ہنگری کے علاوہ اس ویب سیریز کے بہت سے مناظر پروڈکشن ٹیم کے بنائے ہوئے سیٹ پر فلمائے گئے ہیں جن میں سپیشل ایفیکٹس بھی شامل کیے گئے ہیں۔
آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ 10 میں سے 7.8 ہے جب کہ نیٹ فلیکس پاکستان پر یہ نمبر 1 پر موجود ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں فلمائی گئی یہ کہانی پیغام دیتی ہے کہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں اور کیسا ہی گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہو، انسان کو اُمید کا دیا جلائے رکھنا چاہیے کہ یہی دیا مایوسی کے سرد سناٹے میں الاؤ بن کر دہک اٹھتا ہے اور اسے زندگی کی حرارت میں تبدیل کر دیتا ہے۔