شطرنج کی سیاسی بساط…..(غیر سیاسی باتیں..اطہر قادرحسن)
ہر ایک پیادے اور سوار کو یہی محسوس ہو کہ گیم کے اختتام پر وہ جیت جائے گا لیکن جیت کس کی ہوگی یہ صرف شطرنج بچھانے والے جانتے ہیں کہ کس طرح اس بساط پر اپنے گھوڑوں کو دوڑانا ہے کون سا گھوڑا آگے دوڑے گا اور کون سا گھوڑا عقب سے آکر سب سے آگے نکل جائے گا
الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی شطرنج کی بساط بچھ چکی ہے شطرنج کے دونوں طرف پیادے بساط پر بچھائے گئے مہروں کو بغور دیکھ رہے ہیں اور گیم شروع ہونے سے پہلے اس بات کا یقین کرنا چاہتے ہیں کہ جیت ان کا مقدر ٹھہرے۔ لیکن شطرنج کی بساط بچھانے والے بھی کچھ کم عقل والے نہیں ہیں انہوں نے یہ بساط اس طرح بچھائی ہے کہ ہر ایک پیادے اور سوار کو یہی محسوس ہو کہ گیم کے اختتام پر وہ جیت جائے گا لیکن جیت کس کی ہوگی یہ صرف شطرنج بچھانے والے جانتے ہیں کہ کس طرح اس بساط پر اپنے گھوڑوں کو دوڑانا ہے کون سا گھوڑا آگے دوڑے گا اور کون سا گھوڑا عقب سے آکر سب سے آگے نکل جائے گا۔ یہ شطرنج کوئی آج نہیں بچھائی گئی بلکہ گزشتہ سات دہائیوں سے ہی بچھی ہوئی ہے صرف مہرے بدلتے رہتے ہیں اور بساط پردوڑتے ہوئے گھوڑے اپنے سموں تلے قلعے کو فتح کرنے کی کو شش کرتے ہیں جن کی نظر اس گیم پلان کو سمجھ کر دور تک دیکھ رہی ہوتی ہے ان کے لئے فتح قدرے آسان ہو جاتی ہے اور ان میں سے جیت کرکوئی بادشاہ بن جاتا ہے تو کسی کے حصہ میں ملکہ کا خطاب آجاتا ہے اور کوئی وزیر بن جاتا ہے لیکن یہ سب تب ہی ممکن ہو پاتا ہے کہ جس کے پاس شطرنج ہو اور اس کی بساط پر بچھائے گئے مہرے اسی کے اشاروں پر حرکت میں آئیں اور صرف وہی داؤ چلیں جس کی جنبش آبرو نے اجازت دی ہو۔ کوئی بھی مہرہ اگر اپنی مرضی سے جلد بازی میں غلط چال چلنے کی کوشش کرے تو اس کا حشر بھی شطرنج کے بادشاہ کی طرح ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی پیادہ یا وزیر اسے مروا دیتا ہے یا پھر وہ گھوڑوں کے سموں تلے کچلا جاتا ہے اور یوں گیم ختم ہو جاتی ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اگر سارے مہرے مر بھی جائیں اور بادشاہ سلامت رہے تو گیم چلتی رہتی ہے لیکن بادشاہ کے پاس زیادہ ادھر اُدھر ہونے کی گنجائش نہیں
ہوتی وہ صرف ایک قدم آگے یا پیچھے، دائیں یا بائیں ہی چل سکتا ہے اس سے زیادہ آزادی اس کی قسمت نہیں ہوتی۔ایک بھی غلط قدم اس کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے اور جب بادشاہ ہی سلامت نہ رہے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔
شطرنج کی بساط سے مجھے اپنے بزرگ میاں سلطان یاد آگئے جو میرے والد صاحب کے چچا تھے اور ضلع خوشاب کے ایک قدیم قصبے مٹھہ ٹوانہ میں رہائش پذیر تھے جہاں پر ان کے والد میاں نظام دین ہمارے بزرگ حضرت میاں اطہر ؓصاحب کے مزار کے گدی نشین تھے۔ میاں نظام دین شطرنج کے مشہور کھلاڑی تھے اور اپنی بیٹھک میں دوستوں کے ہمراہ شطرنج کی بازی جماتے تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے میاں سلطان اپنے والد کو یہ عجیب و غریب کھیل کھیلتے دیکھتے اور اسی دیکھا دیکھی میں انہوں نے اس میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ شطرنج کی دنیا کے بڑے بڑے شہ سواروں کو مات دے دی جن میں کیوبا کے کیپا بلانکااور روس کے گیری کیسپروف بھی شامل تھے اور یوں انہوں نے دو بار شطرنج کا عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔ اتنی مہارت کے باوجود احترام اس قدر تھا کہ کبھی اپنے والد سے جیتنے کی کوشش نہ کی۔ ان کے والد کہتے تھے کہ میاں سلطان غلط چالیں چل کر مجھ سے جان بوجھ کر ہار جاتا ہے۔بات سیاسی شطرنج سے شروع کی تھی لیکن شطرنج کاذکر آتے ہی میرے اپنے بزرگوں کی جانب نکل گئی جس کے لئے علیحدہ کالم درکار ہیں۔
بہر حال عرض کر رہا تھا کہ شطرنج کی بازی قسمت والوں کے حصے میں ہی آتی ہے یہ ایک صبر آزما بازی ہے اور اس میں جس قدر تحمل مزاجی اور پھونک پھونک کر اردگرد کے تمام خطرات کو مد نظر دیکھ کر چالیں چلی جائیں اس میں نقصان کا احتمال اتنا ہی کم ہوتا ہے لیکن اگر آپ نے بغیر سوچے سمجھے جذبات کی رو میں بہہ کر یاحد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو کر کوئی غلط چال چل دی تو پھر نہ تو کوئی وزیر آپ کو چھوڑے گا
اور نہ ہی کوئی پیادہ آپ کے گھوڑوں کا احترام کرے گا۔
شطرنج کی اس بازی کا ہم گزشتہ ستر برس سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہوئے گزرتے
جارہے ہیں لیکن یہ صبر آزما بازی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کیونکہ اس بازی کے کھلاڑی اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں بچھائی گئی بساط پر ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور ہار بھی کیوں مانیں کہ اس بازی کے تمام تر مہرے تو ان کے اپنے ہاتھوں سے بچھائے گئے ہیں جو ان کی مرضی کے بغیر حرکت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں لہذا یہ بازی کبھی نہ ختم ہونے والی بازی ہے اور اگرکبھی یہ بازی ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی توبہت نقصان کا اندیشہ ہے البتہ اگر ان کے مہرے ختم ہوتے رہیں تو تازہ دم پیادے بہت ہیں جو بخوشی اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔ان کے مطمع نظر صرف نگاہ التفات ہوتی ہے جس کے وہ منتظر رہتے ہیں اور اگر وہ اس نگاہ سے فیض یاب ہو جائیں تو کوئی بھی پیادہ یا گھڑ سوار ان کا راستہ نہیں روک سکتا۔
بہر حال عوام کے لئے یہ خوش خبری ضرور ہے کہ ان کے ملک میں تاخیر سے ہی سہی لیکن الیکشن ہونے جارہے ہیں اور اب الیکشن میں تاخیر کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی۔ لیکن کیا یہ الیکشن عوام کی نمائندگی کا حق ادا کر سکیں گے یہ وہ سوال ہے جو ہو سکتا ہے آمدہ الیکشن کے بعد سوالیہ نشان بن جائے اور سیاسی شطرنج کی بساط کے دلدادوں کو پریشانی میں مبتلاء کر دے۔
مومن خان مومن کا شعر اس بساط کی صحیح ترجمانی کرتا ہے
میں بساط شوق بچھاؤں کیا، غم دل کی شرط لگاؤں کیا
جو پیادہ چلنے میں طاق تھے وہ تمام مہرے بکھر گئے