پاکستان کے مہنگے تعلیمی ادارے اور منشیات ‘ فحاشی’ "بولڈنیس” کا بڑھتا ہوا رجحان!……سید عاطف ندیم
ابھی دو دن پہلے ایک ایسے ہی مہنگے تعلیمی اداروں کی خفیہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جہاں اس مہنگے تعلیمی اداروں کے طلبا وطالبات نشے میں دھت' برہنہ ناچ رہے تھے ' یہ وہ تعلیمی ادارے جو اپنی فیس ڈالروں اور پونڈوں میں وصول کر کے مذکورہ بالا تمام زہر پاکستانی معاشرے میں سرایت کررہے ہیں
پاکستان کے مہنگے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال ‘ فحاشی عریانیت’ طالبات کا مختصر سے مختصر لباس خوب پروان چڑھ رہا ہے’ شائستگی ‘ تہذیب و تمدن’ رکھ رکھاؤ سے عاری روایات کو گستاخی: بد تمیزی نہیں بلکہ "بولڈنیس” کا نام دیا جارہا ہے ‘ یہاں سے یہ تمام خرافات ‘ خانگی زندگی ‘ معاشرے اور دیگر تعلیمی اداروں میں پھیل رہی ہیں ‘
ابھی دو دن پہلے ایک ایسے ہی مہنگے تعلیمی اداروں کی خفیہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جہاں اس مہنگے تعلیمی اداروں کے طلبا وطالبات نشے میں دھت’ برہنہ ناچ رہے تھے ‘ یہ وہ تعلیمی ادارے جو اپنی فیس ڈالروں اور پونڈوں میں وصول کر کے مذکورہ بالا تمام زہر پاکستانی معاشرے میں سرایت کررہے ہیں.
‘ سوال یہ ہے کہ شرفا اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے لئے کہاں بھیجیں ؟ ہماری ایک عزیزہ جو برطانیہ سے کچھ عرصے کے لئے پاکستان
منتقل ہوئی تو انگریزی زبان کی وجہ سے لا محالہ اسے یہاں کے تعلیمی ادارے میں ہی اپنی بچی کو داخل کروانا پڑا ‘ جب انہوں نے اس ادارے کا ماحول دیکھا تو کانوں کو ہاتھ لگالیا’ کہ ہم نے تو برطانیہ میں رہ کر اپنے بچوں کو ان خرافات سے محفوظ رکھا ہے افسوس! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا ماحول ؟ انہوں نے سکول انتظامیہ سے بالکل دو ٹوک کہہ دیا کہ ہماری بچی یہاں تعلیم تو حاصل کرے گی لیکن آپ کی کسی ہلڑبازی اور بدتمیزی میں شریک نہیں ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے ایسے کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ماحول سے بغاوت کرسکیں ؟
ہم نے جو پاکستان میں نفاذ اردو کی تحریک چلائی ہوئی ہے جس کے لئے ہم گزشتہ چودہ سال سے صدائے حق بلند کئے ہوئے ہیں اس کا مقصد ہی اپنی تہذیب و ثقافت کو بچانا ‘ پاکستان کو ترقی ‘ خوشحالی ‘ اور سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کی راہ پر ڈالنا ہے’ ہم یہ دعوی سے کہتے ہیں کہ زبان صرف زبان نہیں ہوتی وہ تہذیب’ تاریخ وتمدن کا دوروازہ ہوتی ہے’ ہم انگریزی ذریعہ تعلیم سے انگریزی نہیں سیکھ رہے ‘ ہم انگریزی ثقافت سیکھ رہے ہیں ‘ ہم انگریزی ذریعہ تعلیم سے انگریزی سیکھتے تو آج پاکستان میں آج سائنس دان’ فلسفی ‘ ماہر معاشیت’ انگریزی ادب کے نامور لکھاری پیدا ہوتے ‘ دنیا میں سب سے مہنگی انگریزی پاکستان میں سکھائی جاتی ہے پاکستان میں کتنے شیکسپیئر ‘ ورڈز ورتھ ‘ کیٹس پیدا ہو گئے ہیں؟
جتنا مہنگا تعلیمی ادارہ
اتنی ہی مغربی تہذیب ‘ مغربی بودوباش ‘ مغربی لباس ‘ مغربی اقدار ‘مسلط ہے اتنی ہی مہنگی شراب’ اتنی مہنگی منشیات ان اداروں میں عام ہیں’ پہلے تو صرف طلباء ہی منشیات کے عادی تھے’ اب ان اداروں کی طالبات بھی طلباء سے منشیات کے استعمال اور جسم فروشی میں طلباء سے کم نہیں! ۔
یہ وہ سستے مزدور ہیں جو مغربی طاقتوں کی ضرورت ہے ان اداروں میں جو طلباء زیر تعلیم ہیں ان کا پاکستان کی تعمیر وترقی میں کوئی کردار نہیں وہ بالآخر انہی ممالک کو پیارے ہوجائیں گے۔ جو ان کو اپنا نصاب اور زبان پڑھاریے ہیں!
لارڈ میکالے نے برصغیر پر انگریزی مسلط کرنے سے پہلے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن ‘ خوشحالی ‘ اعلی اقدار کی گواہی برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی تھی’ اس نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو برباد کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ یہاں پر انگریزی مسلط کردی جائے جس سے یہاں وہ قوم پیدا ہوگی جو رنگ ونسل میں ہندوستانی اور تہذیب میں برطانوی ہوگی!
کیا ہمارے تعلیمی ادارے آج لارڈ میکالے کی اس پیش گوئی کو درست ثابت نہیں کررہے ؟
کوئی بربادی سی بربادی ہے!