انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں پولیس کے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں افغان خواتین کو بھی گرفتار کر رہی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ جاری کریک ڈاؤن میں پولیس خواتین اور بچوں کو بھی گرفتار کر رہی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں حکومت کی جانب سے غیرقانوی طور پر مقیم غیرملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد سے اب تک ڈھائی لاکھ افغان پاکستان چھوڑ کر واپس افغانستان جا چکے ہیں۔
حکومت پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن مقرر کر دی تھی۔
غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر افغان ہوئے ہیں کیونکہ پاکستان میں مقیم غیرملکیوں میں افغانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ صرف ان غی ملکیوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں جو غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل منیزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’سندھ میں پولیس نے نصف شب گھروں پر چھاپے مار کر افغان خواتین اور بچوں کو گرفتار کیا ہے۔‘
یکم نومبر سے منیزہ کاکڑ اور انسانی حقوق کے دیگر کارکنان حراستی مراکز کے باہر افغانوں کی مدد کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں ان سینٹر تک رسائی میں مشکلات درپیش ہیں۔
ان کے پاس چھاپے کے اوقات اور غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کو لے کر جانے والی بسوں کے اوقات کے بارے میں معلومات نہیں۔
منیزہ کا کہنا ہے کہ ’31 اکتوبر کی ڈیڈلائن کے بعد پولیس سینکڑوں افغانوں کو روزنہ کی بنیاد پر گرفتار کر رہی ہے۔ وہ بچوں اور خواتین کو بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔‘
گذشتہ برس دسمبر میں افغان خواتین اور بچے بھی ان 12 سو افراد میں شامل تھے جن کو سفری دستاویزات کے بغیر کراچی میں داخل ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
جب حراستی مراکز میں موجود ان بچوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر ہوئی تو پورے افغانستان میں ان پر تنقید ہوئی۔
منیزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ موجودہ کریک ڈاؤن نے ان افغانوں کے لیے حراست کے خطرے کو بڑھا دیا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود ہیں اور وہ اس خوف کی وجہ سے اپنے گھروں تک محدود ہو گئے ہیں۔
’میں کچھ ایسے خاندانوں کو جانتی ہوں جو کھانے کی چیزوں کی غیر موجودگی کے باوجود گھروں کے اندر رہنے پر اس لیے مجبور ہیں کیونکہ پولیس مسلسل افغانوں کو ان کی امیگریشن سٹیس سے قطع نظر گرفتار کر رہی ہے۔‘
انہوں نے ان بچوں کی مشکلات کو اجاگر کیا جن کے پاس پاکستان میں پیدا ہونے کے باوجود شناختی دستاویز نہیں، حالانکہ ان کے والدین کے پاس دستاویزات ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل کا کہنا تھا کہ ’چھوٹے بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کیا جا رہا ہے۔‘
منیزہ کاکڑ کے مطابق پشتو بولنے والے ایک ایسے بچے کو گرفتار کر کے افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا کیونکہ ان کے والدین کسی وجہ سے ان کی نادرا میں رجسٹریشن نہیں کرا سکے تھے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ حنا جیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس پناہ گزینوں، سیاسی پناہ مانگنے والوں اور بغیر دستاویزات کے مقیم مہاجرین سے نمٹنے کے لیے موثر منصوبہ نہیں۔
انہوں نے حکومت کی سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی پر تنقید کی۔ حنا جیلانی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ضرورت کی بنیاد پر حل والا فارمولا اختیار کریں، خصوصاً ان کے لیے جو سنہ 2021 میں طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان آ گئے تھے۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں سکیورٹی فورسز اور سویلین کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اکثر حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان یا افغان طالبان کے اتحادی دوسرے گروپوں نے قبول کی ہے۔
سنیچر کو ٹی ٹی پی نے خیبرپختونخوا میں ایک ایسے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی جس میں تین پولیس افسران ہلاک اور تین دیگر زخمی ہوئے تھے۔
پاکستان افغان طالبان پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے جسے افغان طالبان مسترد کرتے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں سے بعض میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین ملوث ہیں۔
سندھ میں غیرقانونی افغان مہاجرین کے حراستی اور ڈیپورٹیشن مراکز کے ذمہ دار پولیس آفیسر جنید اقبال خان تسلیم کرتے ہیں کہ شروع میں ایسے واقعات ہوئے جن میں دستاویزات والے افغان یا کچھ پاکستانی شہریوں کو بھی غلط شناحت کی بنا پر حراست میں لیا گیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب صرف ان افغانوں کو ڈیپورٹیشن سینٹر بھیجا جا رہا ہے جن کے پاس دستاویزات نہیں۔
گذشتہ 10 دنوں کے اندر دو ہزار لوگوں کو مرکزی سینٹر لایا گیا جہاں سے روزانہ کئی بسیں ان کو لے کر بلوچستان میں افغان سرحد کی طرف رونہ ہو رہی ہیں۔
جنید اقبال خان کا کہنا ہے کہ کیونکہ وہ غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کی گرفتاری کے لیے ہونے والے چھاپوں میں شامل نہیں اس لیے وہ اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔