انٹرٹینمینٹ

فلسطینی لڑکے سے متعلق فلم آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد، اسرائیل غصے سے بھڑک اٹھا

سمندر نامی فلم در اصل اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے رہنے والے ایک فلسطینی لڑکے خالد کی کہانی ہے۔ جو قریب ہی موجود سمندر کو دیکھے بغیر بڑا ہونے سے ڈرتا ہے

ایجنسیاں
سال 2026 کے لیے فلم کو آسکر ایوارڈز کی خاطر اسرائیلی انٹری کے ڈائریکٹر کو ایک فلسطینی لڑکے کی سمندر کو دیکھنے کی خواہش کے حوالے سے امید ہے کہ تمام تر تنازعات کے باوجود ہمدردی کی لہر پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
غزہ میں دو سال کی جنگ اور مغربی کنارے میں آباد کاروں کے انتہائی پرتشدد حملوں میں اضافے کے نتیجے میں غزہ کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی ایک ہزار کے لگ بھگ فلسطینیوں کی ہلاکتوں اور تشدد میں اضافے کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دیرپا امن کے امکانات تاریک نظر آتے ہیں۔
تاہم ہدایت کار اور مصنف شائی کارمیلی پولک نے اپنی فلم ‘دی سی’ یعنی سمندر کے والہانہ خیر مقدم سے لے کر اسرائیل کا سب سے اعلیٰ فلمی انعام جیتنے کا تہیہ کیا ہے۔
ماہ مارچ میں غیر ملکی زبانوں کے لیے آسکر ایوارڈ کے لیے خود جمع کرائے جائیں گے۔ یہ بات کارمیلی پولاک نے ایک انٹرویو میں کہی۔ ان کا کہنا تھا میں نے ان ناظرین سے ملاقاتیں کیں جو اسے دیکھنے آئے تھے۔ میرے لیے یہ یہ حیرت انگیز تھا کہ لوگ اس قدر جذباتی ہو رہے تھے۔ کئی مواقع پر فلم کی کہانی ناظرین کو آنسسؤں سے رکا دینے والی ثابت ہوئی۔
خصوصا جب ایسا لگتا تھا کہ اسرائیلی فوج ان کے سامنے تشدد کر رہی ہے۔ سمندر نامی فلم در اصل اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے رہنے والے ایک فلسطینی لڑکے خالد کی کہانی ہے۔ جو قریب ہی موجود سمندر کو دیکھے بغیر بڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور ساحل تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے لیے تنہا اور سفری کاغذات کے بغیر اسرائیل سے گزرنے کا خطرہ مولیتا ہے۔
پھر اسے حال ہی میں ایک روز سکول جاتے ہوئے ایک فوجی چوکی سے گزرنا پڑا تو اسے اچانک لا پتہ کر دیا گیا تھا۔ اس کے یوں اچانک غائب ہونے سے اس کے والد جو کہ اسرائیل میں ایک ان رجسٹرڈ مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اپنے بیٹے کی تلاش میں نکل کر اپنی گرفتاری کا بھی خطرہ مول لے لیتے ہیں۔
اس محبت کے جذبے کی کہانی سے بنی اس فلم سمندر کو ماہ ستمبر میں اوفیر ایوارڈ میں بہترین فلم کا ایوارڈ جیتنے پر اسرائیلی وزیر ثقافت کے غصے اور مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔ نیتن یاہو حکومت اس وقت مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادی بڑھانے کے لیے پر عزم ہے۔
کارمیلی پولاک اور اسرائیلی فلم کے فلسطینی پروڈیوسر اگبادیہ کے خیال میں ایسی فلمیں بنانا اس لیے ضروری ہے کہ ان فلموں کی مدد سے لوگ ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان کے بقول اسی صوت ہم جنگ کے باوجود اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
اگباریہ نے کہا یہ بلاشبہ حیران کن ہے کہ جنگ کے پس منظر میں اسرائیل کے سینما گھروں میں فلسطینی کہانی کو مرکزی دھارے میں لایا جائے۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ جولائی سے اب تک یہ فلم اسرائیلی سینماؤں میں دیکھی جا رہی ہے۔
یاد رہے اس سے پہلے 2025 میں ‘کوئی دوسری جگہ نہیں’ نامی فلم بھی ایوارڈ جیت چکی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button