اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

بلوچستان میں انتخابی امیدوار عسکریت پسندوں کے نشانے پر، کئی علاقوں میں بم دھماکے

 بدھ کو کوئٹہ، خضدار، کیچ  اور حب میں امیدواروں کی رہائش گاہوں، دفاتر اور پولیس ناکوں پر چھ دستی بم حملے کیے گئے جن میں آٹھ افراد زخمی ہوگئے۔

بلوچستان میں عام انتخابات قریب آتے ہی بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا۔ انتخابی مہم اور امیدوار عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔

 بدھ کو کوئٹہ، خضدار، کیچ  اور حب میں امیدواروں کی رہائش گاہوں، دفاتر اور پولیس ناکوں پر چھ دستی بم حملے کیے گئے جن میں آٹھ افراد زخمی ہوگئے۔
اُدھر قلعہ عبداللہ میں پارٹی جھنڈا لگانے پر جھگڑے میں عوامی نیشنل پارٹی کا ایک کارکن ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔
خضدار میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے
خضدار میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے جن میں لیویز اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہوگئے۔
ایس ایچ او خضدار عبدالعزیز  کے مطابق پہلا دھماکہ شہر سے کچھ فاصلے پر واقع کھٹان ندی کے قریب لیویز کی چیک پوسٹ پر نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار زخمی ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ دوسرا دستی بم حملہ خضدار کے ڈبل روڈ پر پیپلز پارٹی کے پی بی 19 خضدار سے امیدوار آغا شکیل احمد درانی کے گھر پر کیا گیا۔
گھر میں ان کا انتخابی دفتر بھی قائم ہے جس کے باہر محافظ تعینات تھے۔ دستی بم حملے میں ایک محافظ معمولی زخمی ہوا۔
آغا شکیل احمد دُرانی سابق وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔
یہ دھماکے ہوئے جب ایک روز بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا خضدار میں جلسہ منعقد ہونا ہے۔ پولیس نے دھماکوں کے بعد شہر میں سکیورٹی سخت کردی ہے۔
کوئٹہ میں پیپلز پارٹی کے انتخابی دفتر پر دستی بم حملہ
کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر گاہی خان چوک کے قریب سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کے پی بی 45 سے امیدوار علی مدد جتک اور این اے 264 کے امیدوار نوبزادہ جمال رئیسانی کے انتخابی دفتر کے باہر نامعلو م افراد نے دستی بم پھینکا جو دھماکے سے پھٹ گیا۔
حملے میں چھ افراد زخمی ہوگئے۔زخمی ہونے والے پیپلز پارٹی کے کارکن بتائے جاتے ہیں۔
علی مدد جتک کا کہنا ہے کہ ’حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ دفتر میں موجود تھے جبکہ ان کے محافظ باہر کھڑے تھے۔‘
کیچ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے گھر پر بم حملہ
اُدھر ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں بھی پیپلز پارٹی کے پی بی 25 کے امیدوار سابق صوبائی وزیر ظہور احمد بلیدی کی رہائش گاہ پر نامعلوم افراد نے دو دستی بم پھینکے جو دھماکے سے پھٹ گئے، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ظہور بلیدی نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’حملے کی ذمہ داری  بی ایل اے کے دہشت گردوں نے قبول کی ہے۔ میں اور میرا خاندان ان بُزدلانہ کارروائیوں سے نہ پہلے خوفزدہ ہوئے نہ اب ہوں گے۔‘
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دونوں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دہشت گردوں کے بُزدلانہ حملے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے انتخابی دفتروں اور امیدواروں پر حملوں کے ذمہ اروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔‘
حب میں جام کمال کے دفتر پر دستی بم حملہ
کراچی سے متصل حب میں جام کالونی میں مسلم لیگ ن کے انتخابی دفتر پر نامعلوم افراد نے دستی بم پھینکا۔ایس ایچ او سٹی پولیس حب ملک جبار کے مطابق خوش قسمتی سے دستی بم پھٹ نہیں سکا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یہ این اے 257 حب کم لسبیلہ کم آواران سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال خان کا انتخابی دفتر ہے، تاہم حملے کے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے۔
ایک روز پہلے سبی میں پی ٹی آئی کی انتخابی ریلی کے دوران بم دھماکے میں چار کارکن ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوگئے تھے۔
تُربت میں پولیس ناکہ نشانے پر
ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹرز تُربت کے علاقے جوسک میں نامعلوم افراد نے پولیس ناکے پر دستی بم پھینکا۔ تُربت پولیس کنٹرول کے مطابق نامعلوم افراد نے ناکے پر دستی بم پھینکنے کے بعد فائرنگ بھی کی اور اس کے بعد فرار ہوگئے۔ حملے میں ایک پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوا۔
 جھنڈا لگانے پر اے این پی کا کارکن قتل، چچا زاد بھائی زخمی
بدھ کو ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے کلازئی میں جھنڈا لگانے پر جھگڑے کے دوران فائرنگ سے ایک شخص ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔
علاقے کے لیویز انچارج محمد سلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کلازئی میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن جھنڈا لگا رہے تھے جس پر علاقے میں اے این پی کے امیدوار کے ساتھ قبائلی دشمنی رکھنے والے شخص کے حامیوں نے انہیں روکا۔‘
’اس دوران جھگڑا ہوا اور فائرنگ کے تبادلے میں اے این پی کے دو کارکن ظہور احمد اور اس کا چچا زاد بھائی معین خان زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں ظہور احمد ہسپتال منتقل کرتے ہوئے دم توڑ گئے۔‘
واقعے کے خلاف اے این پی کے کارکنوں نے کوئٹہ چمن شاہراہ کو بند کرکے احتجاج کیا اور ٹریفک معطل کردی۔ بعدازاں ڈپٹی کمشنر کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کردیا گیا۔
مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button