امیر جماعت اسلامی سراج الحق مختلف علاقوں میں مقامی قیادت کے ساتھ مل کر جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور مقتدر حلقوں پر تنقید کر رہے ہیں۔سراج الحق ن کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ ’پاکستان میں انتخابات میں حصہ لینا مشکل کام ہے کیونکہ یہاں منشور، نظریے اور کردار کی بجائے پیسہ چلتا ہے۔‘ان کے مطابق ’سیاسی جماعتوں کو یکساں ماحول بھی میسر نہیں ہوتا۔ آج بھی ملک میں گھٹن اور شکوک و شبہات ہیں۔ یہاں ایک عرصے سے کنٹرولڈ ڈیموکریسی قائم ہے۔‘سراج الحق لوئر دیر کے حلقہ این اے 6 سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں انہیں اس حلقے سے کامیابی نہیں مل سکی تھی جس کا الزام وہ اسٹیبلشمنٹ پر لگاتے ہیں۔انہوں نے حالیہ انتخابات میں اس حلقے پر اپنی پوزیشن کے حوالے سے کہا کہ ’پچھلی مرتبہ بالائی طاقتیں یا اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہوتی تو ہماری جماعت کامیاب ہو جاتی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ متعلقہ ادارے سمیت دیگر ادارے غیرجانبدار ہوں تو ہم کراچی سے لے کر چترال تک کامیاب ہو سکیں گے۔‘’جو جماعتیں اس وقت الیکشن میں ہیں، وہ کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن نہیں لڑ رہی بلکہ وہ سب کچھ پیسے کے زور پر کر رہی ہیں۔ بلکہ وہ تو کھلم کھلا کہتے ہیں کہ وہ پولنگ سٹیشن کے عملے کو خریدیں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’گزشتہ انتخابات میں بیلٹ باکس اٹھا کر ’چھاؤنیوں‘ میں لے جائے گئے۔‘ ایک تأثر یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کو فلاحی کاموں کے لیے پسند تو کیا جاتا ہے لیکن اتنی تعداد میں اسے ووٹ نہیں ملتے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اسے مثبت پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ ’لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہماری جماعت جمہوری اور ترقی پسند جماعت ہے۔ ہمارے لوگ پانامہ پیپرز، پینڈورا پیپرز یا توشہ خانہ لوٹنے والوں میں ہیں اور نہ ہی ہم پر نیب کا کوئی کیس ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اگر ووٹر کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور ’کسی کو منیجمنٹ کے تحت کامیاب اور ناکام کرنے کا کھیل ختم ہوا تو جماعت اسلامی ایک بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔‘26 جنوری کو سراج الحق نے حیدر آباد میں انتخابی جلسے میں کہا تھا کہ آستین کے سانپوں کی موجودگی میں پاکستان کو بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے۔اس سوال پر کہ آپ کے مطابق آستین کے سانپ کون ہیں؟ انہوں نے اشاروں کنایوں میں گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان پر حکومت کرنے والوں کا ذکر کیا۔انہوں نے آستین کے سانپوں کو ’سیاسی سانپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’انہی کی وجہ سے پاکستان کے ہسپتالوں میں عام آدمی کے لیے بہترین علاج میسر نہیں، روزگار نہیں، عدالتوں میں انصاف نہیں اور تعلیم گاہوں میں تعلیم نہیں ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ کشمیر پر حملہ اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی نہ ہونے میں انہی سانپوں کا کردار ہے۔امیر جماعت اسلامی کے مطابق ’اندرون سندھ میں وڈیرہ شاہی ہے اور غربت ناچ رہی ہے۔‘سراج الحق نے کہا کہ ’سمندر پار پاکستانی 20 ملین ڈالرز پاکستان بھیجتے ہیں لیکن سیاسی اژدھے یہاں سے اٹھا کر وہ باہر بھیج دیتے ہیں۔ یہ سیاسی اژدھے 550 ارب کی بجلی مفت اور 220 ارب کا مفت پیٹرول استعمال کرتے ہیں۔‘ماضی میں جب عمران خان اور طاقتور حلقوں کے مابین تلخیاں بڑھنے لگیں تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق بطور ثالث سامنے آئے اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کی صلح کروائیں گے تاہم وہ ناکام ہوئے۔اس حوالے سے انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقتدر حلقوں نے عمران خان کو تمام حکومتیں دیں لیکن وہ نہیں چلا سکے۔ ’عمران خان نے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر اس بزدار کو بٹھایا جو ایک یو سی کو بھی چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کیا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ان کے مطابق عمران خان اور شہباز شریف دونوں چاہتے تھے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو دوبارہ بھی موقع دینا چاہیے ’لیکن بدقسمتی سے عمران خان کی صلح نہ ہو سکی حالانکہ ان کے پاس اکثریت تھی تاہم جو حکومت جس طرح بنتی ہے اُسی طرح ختم ہو جاتی ہے۔‘انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر آٹھ فروری کے بعد انہیں موقع ملا تو وہ اسمبلی میں آنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں کو ایک ساتھ بٹھائیں گے۔جماعت اسلامی اس سے قبل کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئی تھی لیکن انہیں بلدیاتی حکومت نہ مل سکی جس پر حافظ نعیم الرحمان نے مزاحمت بھی کی لیکن اس کے بعد پارٹی نے قانونی مزاحمت سے گریز کیا۔ذرائع نے بتایا تھا کہ اس کے بعد حافظ نعیم الرحمان لاہور میں ایڈووکیٹ خواجہ حارث سے ملاقات کرنے بھی آئے تھے۔ سراج الحق نے اس ملاقات سے لاعلمی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کی جماعت میں ایسی کوئی تجویز زیرِغور نہیں آئی۔’کراچی کے انتخابات پر سپریم کورٹ جانے یا الیکشن کمیشن میں بات کرنے سے متعلق ہم وہاں کی قیادت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر مقامی قیادت کی ایسی کوئی رائے ہوتی تو جماعت ضرور ساتھ دیتی ہے۔‘جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا شمار ایوان بالا کے متحرک ارکان میں ہوتا ہے۔ وہ اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی مارچ کے کیمپس میں بھی گئے اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر بھی احتجاج کرتے ہیں۔ تاہم جماعت اسلامی بطور سیاسی جماعت اس حوالے سے کھل کر سامنے نہیں آتی۔اس پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ سینیٹر مشتاق اگر کوئی بیان دیتے ہیں یا کسی کیمپ میں جاتے ہیں تو ہم اسے کافی سمجھتے ہیں اور ان کو سپورٹ کرتے ہیں۔‘جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان بلوچ اس بار ’حق دو تحریک‘ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوال کیا تو سراج الحق کا کہنا تھا کہ علاقائی مسائل پر بات کرنا جماعت اسلامی کی اجتماعی پالیسی ہے۔ ’ہم ملکی مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل پر بھی بات کرتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں حق دو تحریک کے پشت پر جماعت اسلامی کی سپورٹ شامل ہے۔‘حالیہ انتخابات کے نتیجے میں جماعت اسلامی کے کسی کے ساتھ ممکنہ اتحاد پر ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد محض اقتدار کا حصول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پی ڈی ایم نے جب عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا تو آصف علی زرداری اور شہباز شریف ہمارے پاس آئے تھے لیکن وہ ایک حکومت تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے ہم نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔‘سراج الحق کے مطابق اگر ان کے منشور، نظریے اور وژن کے قریب تر کوئی جماعت ہوئی تو اُسی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو گا۔ان کے بقول ’یہ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن میں ایک بار پھر وضاحت کر دوں کہ جماعت اسلامی کا مقصد وزارت اور منصب کا حصول نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ترقی کرے اور پاکستان دنیا میں ایک ایسا ملک بنے جس پر بیرون ملک مقیم پاکستانی فخر کر سکے۔‘
With Product You Purchase
Subscribe to our mailing list to get the new updates!
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur.
متعلقہ مضامین
بھی چیک کریں
Close