
(اسپیشل رپورٹ)
پاکستان میں بدعنوانی کے مقدمات کی تحقیقات کرنے والے ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) نے بحریہ ٹاؤن کی تین کمرشل جائیدادیں مجموعی طور پر دو ارب 26 کروڑ روپے میں نیلام کر دی ہیں۔ یہ اقدام بحریہ ٹاؤن کے بانی اور معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کے خلاف جاری 190 ملین پاؤنڈ سیٹلمنٹ کیس سے منسلک عدالتی احکامات کی روشنی میں اٹھایا گیا ہے۔
نیلامی کا پس منظر
نیب کی جانب سے بدھ 7 اگست کو جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کی چھ میں سے تین جائیدادیں نیلام کی جا چکی ہیں، جب کہ باقی تین کی نیلامی مؤخر کر دی گئی ہے۔ اعلامیے کے مطابق یہ اقدام عدالتی پلی بارگین کے تحت باقی رہ جانے والی رقم کی وصولی کے لیے کیا گیا ہے۔
نیلام ہونے والی جائیدادیں
روبیش مارکی: 50 کروڑ 80 لاکھ روپے میں نیلام، کم از کم قیمت سے دو کروڑ روپے زیادہ میں فروخت ہوئی۔
کارپوریٹ آفس ون: 87 کروڑ 60 لاکھ روپے کی مشروط بولی لگی، منظوری باقی۔
کارپوریٹ آفس ٹو: 88 کروڑ 15 لاکھ روپے کی مشروط بولی موصول ہوئی، منظوری زیر التواء۔
نیب حکام کے مطابق ان جائیدادوں کی نیلامی کا عمل شفاف بولی کے ذریعے مکمل کیا گیا اور اب بولی دہندگان کو جائیدادوں کی منتقلی کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کی اپیل
نیب کی نیلامی کے فیصلے کے خلاف بحریہ ٹاؤن نے 6 اگست کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ یہ اپیل سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک کے ذریعے دائر کی گئی۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے نیب کو نیلامی کی اجازت دے دی تھی۔
190 ملین پاؤنڈ کیس: پس منظر اور نیب کا مؤقف
یہ نیلامی دراصل بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض کے خلاف برطانیہ میں 2019 میں سامنے آنے والے 190 ملین پاؤنڈ کیس کی ایک کڑی ہے، جس میں برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) نے پاکستان کو منتقل کی جانے والی خطیر رقم کو ملک ریاض سے منسوب کیا تھا۔ بعد ازاں نیب اور حکومت پاکستان نے عدالت کے ذریعے سیٹلمنٹ ڈیل کے تحت اس رقم کی پاکستان میں ری ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کی، مگر تمام رقم کی ادائیگی نہیں ہو سکی۔
نیب کے مطابق:
"یہ فروخت اس سیٹلمنٹ ڈیل سے متعلق غیر ادا شدہ رقم کی وصولی کے لیے کی جا رہی ہے تاکہ ریاستی خزانے کو نقصان سے بچایا جا سکے۔”
ملک ریاض کا ردعمل: "بحریہ ٹاؤن مفلوج ہو چکا ہے”
نیلامی کے بعد ملک ریاض حسین نے اپنے ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر ایک طویل پوسٹ میں اداروں کے رویے پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا:
"ملک بھر میں بحریہ ٹاؤن کا آپریشن شدید طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ عملے کے ارکان کی گرفتاریوں اور فنڈز کی منجمدی کے باعث تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جا رہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:
"اگر یہی صورتحال رہی تو ہمیں بحریہ ٹاؤن کے تمام منصوبے بند کرنے پڑیں گے۔ ریاستی ادارے ہمیں دیوار سے لگا رہے ہیں۔”
نیلامی مؤخر ہونے والی جائیدادیں
نیب کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تین جائیدادوں کی نیلامی کسی تکنیکی یا قانونی وجوہات کے باعث فی الحال مؤخر کر دی گئی ہے اور ان کی نیلامی آئندہ مرحلے میں دوبارہ کی جائے گی۔
مارکیٹ پر اثرات اور ماہرین کی رائے
ریئل اسٹیٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ:
"یہ نیلامی پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ میں ایک بڑا پیغام ہے کہ اب ملک میں بڑے سرمایہ داروں اور بااثر شخصیات سے بھی ادارے جواب دہی لے سکتے ہیں۔ تاہم اگر یہ عمل سیاسی انتقام یا دباؤ کا نتیجہ ہو تو اس کے منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔”
معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ:
"اگر یہ نیلامی شفاف طریقے سے ہوئی ہے اور واقعی قانونی تقاضوں کو پورا کرتی ہے تو یہ ایک مثبت قدم ہے۔ مگر بحریہ ٹاؤن جیسے بڑے ہاؤسنگ برانڈ کے آپریشن رکنے سے ہزاروں افراد کے روزگار اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔”
نتیجہ
بحریہ ٹاؤن کی جائیدادوں کی نیلامی نہ صرف ایک قانونی اور مالیاتی پیش رفت ہے بلکہ پاکستان میں طاقتور سرمایہ داروں کے احتساب کی علامت کے طور پر بھی دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم اس کے سیاسی، سماجی اور معاشی اثرات آنے والے دنوں میں مزید واضح ہوں گے۔