مرشدی سید بلھے شاہ رح… حیدر جاوید سید
تاریخ سات ستارے کے مصنف ان کا نسبی سلسلہ بخاری سادات سے تو جوڑتے ہیں مگر مقام پیدائش اوچ شریف کی بجائے لاہور کے مضافات کی ایک بستی ''پانڈوکے'' لکھ گئے۔
سیدی بلھے شاہ رح (سید عبداللہ شاہ) اوچ شریف ضلع بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ مولوی حفیظ الرحمن اور چند دوسرے سوانح نگاروں نے ان کے نسب کا تذکرہ کرتے ہوئے شجرہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے صاحبزادے سید عبدالوہاب سے جوڑا’ کچھ سوانح نگار انہیں شیخ کے دوسرے فرزند سید عبدالرزاق کی اولاد بتاتے ہیں۔
تاریخ سات ستارے کے مصنف ان کا نسبی سلسلہ بخاری سادات سے تو جوڑتے ہیں مگر مقام پیدائش اوچ شریف کی بجائے لاہور کے مضافات کی ایک بستی ”پانڈوکے” لکھ گئے۔
جبکہ مولوی سید فیض عالم نقوی البخاری دکنی مرحوم( حیدر آباد دکن کے معروف بخاری سادات کے نامور عالم اور چند اہم کتب کے اردو میں اولین مترجم ہیں) کے علاوہ مظاہر نقوی اور کچھ دوسرے محققین کے مطابق بلھے شاہ کے والد سید شاہ محمد( وہ سید شاہ محمد سخی درویش کے نام سے مشہور ہوئے) حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے صاحبزادے سید جہانیاں جہاں گشت کے ایک پوتے سید حامد شاہ کی اولاد میں سے ہیں۔
بخاری گیلانی کا یہ تنازعہ جان بوجھ کر پیدا کیاگیا یا اوچ شہر کی اس منقسم آبادی کی وجہ سے مغالطہ پیدا ہوا جس کی تفصیل یہ ہے کہ شہر کے ایک حصہ میں نقوی البخاری سادات آباد ہیں اور دوسرے حصے میں گیلانی سادات’
شہر کے دونوں حصوں کو صدیوں سے ایک سڑک الگ کرتی ہے۔
بخاری سادات کے جد امجد’ گیلانیوں کی اوچ شریف آمد اور قیام سے لگ بھگ اڑھائی سو سال قبل اوچ شریف پہنچے
یعنی 637 ہجری کے لگ بھگ
گیلانیوں کی اوچ شریف آمد سے اڑھائی سو سال قبل سے شہر میں مقیم بخاری سادات کے بزرگوں کی جائیدادیں شہر کے دو حصوں یا یوں کہہ لیجئے کہ نئے آباد ہونے والے علاقے اوچ گیلانیاں میں بھی تھیں
یہی سے شجرے کی یہ غلط روایت بھی معروف ہوئی جسے مولوی حفیظ الرحمن نے درج کیا اور پھر حسام الدین راشدی تک صوفیا کے کچھ سوانح نگار درج کرتے چلے گئے۔
بلھے شاہ کے والد سید شاہ محمد کو خاندانی جائیداد تقسیم ہونے پر جو حصہ ملا وہ مکان اور اراضی اوچ گیلانیاں والے حصہ میں تھے
اس لئے بھی بعض سوانح نگار انہیں گیلانی سمجھ بیٹھے۔
بلھے شاہ رح کے والد کی اوچ سے ساہیوال کی طرف اولین نقل مکانی اور پھر وہاں سے قصور کی طرف ہجرت بارے بھی مختلف روایات ہیں
مظاہر نقوی’ مظہر عباس اور مولوی سید فیض عالم نقوی دکنی کے خیال میں اختلاف ورثے کی تقسیم پر ہوا اور پھر سید شاہ محمد نے آبائی وطن سے نقل مکانی کو ضروری سمجھاتا کہ ان کی اولاد خاندانی تنازعوں سے محفوظ رہے۔
بلھے شاہ رح کے والد جب دوسری نکل مکانی کے بعد قصور پہنچ کر آباد ہوئے تو شاہ کی عمر اس وقت دس یا گیارہ برس تھی۔
قبل ازیں انہوں نے والدین کے ہمراہ دو سال کا عرصہ مینٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں بسر کیا
یوں اوچ سے نقل مکانی کے وقت بلھے شاہ رح کی عمر 8 یا 9 سال تھی۔
بلھےشاہ رح کی ابتدائی تربیت میں ان کی بڑی ہمشیرہ سیدہ بی بی کا بہت عمل دخل ہے البتہ قصور میں انہیں مولوی غلام مرتضیٰ کے مدرسہ میں داخل کروایاگیا۔
مدرسہ کی تعلیم کے باوجود وہ اپنی مربی و شفیق بہن سیدہ بی بی سے بھی فیض پاتے رہے ان کی ذات اور فہم پر اپنی ہمشیرہ کی تربیت کے انمٹ نقوش ہیں۔
بلھے شاہ رح وحدت الوجود کے سرخیلوں میں شامل ہیں۔
اپنی فہم تربیت اور پھر مرشد شاہ عنایت رح کی نظر کرم کی بدولت وہ ہمیشہ معاشرے کے کمزور طبقات کے ہمنوا رہے اس ہمنوائی کی وجہ سے ہی حاکمان قصور کے خاندان اور خود ان کے استاد محترم مولوی حافظ غلام مرتضیٰ بھی ان کے شدید مخالف بن گئے
نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مولوی غلام مرتضیٰ نے بلھے شاہ رح کے کفر کا فتویٰ بھی دیا
یہی وجہ ہے کہ بھلے شاہ رح کی وفات کے بعد حاکمان قصور اور مولوی غلام مرتضیٰ کے خوف سے کوئی ان کا جنازہ پڑھنے نہ آیا۔
تین دن بعد قصور کے نواح میں مقیم صوفی بزرگ سید زاہد ہمدانی قصور پہنچے اور انہوں نے بلھے شاہ رح کا جنازہ پڑھانے کا اعلان کیا قصور کے علاقے میں انتہائی احترام کے حامل ہمدانی سادات کے سربراہ کے اس اعلان سے عام لوگوں کو حوصلہ ہوا اور وہ اس مقام پر پہنچے جہاں سید زاہد ہمدانی نے بلھے شاہ کی تدفین کے لئے قبر تیار کروائی تھی۔
بدقسمتی سے حاکمان قصور اور مولوی غلام مرتضیٰ کے نمک خواروں کے اس پروپیگنڈے کو بعض سوانح نگاروں نے کتابوں میں درج کردیا کہ بلھے شاہ رح کا جنازہ ایک کھسرے نے پڑھایا تھا۔
یہ پروپیگنڈہ در اصل حاکموں اور ملاوں کے وفاداروں کا تھا۔
بلھے شاہ رح اپنے عہد کے حاکمانِ قصور اور ان کے وفادار ملاوں کے مقابلہ میں سماج کے عام انسانوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے ذات پات کے نظام سے بغاوت کرتے ہوئے کہا
” جو بھی ہمیں سید کہے گا اسے دوزخ سزا ہوگی”
اصل میں شاہ کا یہ شعر ذات پات کی بنیاد پر قائم اس استحصالی نظام کے خلاف اعلان جنگ تھا جس میں حاکموں کو مولویوں کی نہ صرف حمایت حاصل تھی بلکہ دونوں کے مفادات بھی سانجھے تھے ۔
آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلھے شاہ رح اس خطے میں ملامتی صوفیا کے سرخیل تھے۔
انہوں نے بالادست طبقات اور اونچی ذاتوں والے نظام پر اپنی فہم کی تلوار چلائی تو وہ سارے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ان کے خلاف ہوگئے۔
بلھے شاہ رح کی اس انسان دوستی اور استحصالی طبقات سے بیزاری میں ان کی ہمشیرہ سیدہ بی بی کی تربیت کا حسن نمایاں ہے۔
بلھے شاہ رح مذہبی ہم آہنگی کے علمبردار تھے وہ انسانوں کی مذہب و عقیدوں یا ذات پات کی بنیاد پر درجہ بندی کے شدید ناقد ہونے کے ساتھ اس امر پر یقین رکھتے تھے کے وسائل انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں
حاکم صرف امین اور منصف کا کردار ادا کریں ملاوں کے تعان سے عوام کو غلام نا بنائیں ۔
پنجابی کے ایک بلند یایہ صوفی شاعر میاں محمد بخش رح کہتے ہیں
” بلھے شاہ کی کافی سُن کر کفر کا تالہ ٹوٹ جاتا ہے ”
میاں محمد بخش رح کا یہ ارشاد درحقیقت انسانیت پرست اور علم دوست صوفی بلھے شاہ رح کے مقام و مرتبہ کا اعلان ہے
قاضی سرفراز تو بلھے شاہ رح کو پنجاب کا رومی قرار دیتے ہیں
سید شاہ محمد سخی درویش رح کے فرزند سید عبداللہ شاہ المعروف بلھے شاہ رح اپنے عہد میں آزادیء اظہار کی مئوثر و توانا آواز تھے وسیع المشرب و مطالعہ بلھے شاہ رح آخری سانس تک مظلوم طبقات کی آواز بن کر گونجتے رہے اور آج بھی گونج رہے ہیں
شاہ رح نے ہی تو کہا تھا
"بلھے کو موت کب آنی ہے قبر میں تو کوئی اور سوئے گا ”
سچ یہی ہے کہ مرشد بلھے شاہ رح آج بھی زندہ ہیں اور دِلوں پر راج کرتے ہیں ان کے عہد کے ظالم حاکموں اور فتویٰ گیر ملاوں کو اب کون جانتا ہے