
ٹائٹن آبدوز حادثہ: امریکی کوسٹ گارڈ کی رپورٹ میں ڈیزائن، نگرانی اور حفاظتی نظام کی سنگین خامیوں کا انکشاف
کمپنی نے 2023 کے سانحہ خیز مشن سے قبل آبدوز کی حفاظت کے لیے مطلوبہ طریقہ کار کو بھی نظر انداز کیا
واشنگٹن / نیویارک (نیوز ڈیسک) — امریکی کوسٹ گارڈ کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تازہ ترین اور تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2023 میں ٹائٹن آبدوز کے المناک حادثے کی بنیادی وجہ آبدوز کا نامناسب اور غیر محفوظ ڈیزائن تھا، جسے وقت پر درست یا بہتر نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں کمپنی اووشن گیٹ کی جانب سے حفاظتی اصولوں کو نظر انداز کرنے، نگرانی سے بچنے کی کوششوں اور ریگولیٹری فریم ورک سے باہر کام کرنے کے متعدد پہلوؤں پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔
دو سالہ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر
معروف خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، امریکی کوسٹ گارڈ کی میرین بورڈ آف انویسٹی گیشن کے چیئرمین جیسن نیوباؤر نے ایک 300 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی، جس میں تفصیل سے بتایا گیا کہ یہ حادثہ درحقیقت روکا جا سکتا تھا، بشرطیکہ کمپنی کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا۔
رپورٹ کے مطابق، ٹائٹن آبدوز کے ڈیزائن، جانچ، دیکھ بھال اور حفاظتی اقدامات میں سنگین خامیاں تھیں۔ یہ ایک ایسا تجرباتی ماڈل تھا جو موجودہ بحری ریگولیٹری معیار پر پورا نہیں اترتا تھا، اور نہ ہی اسے باقاعدہ منظوری حاصل تھی۔
’نامناسب ڈیزائن، ناکافی نگرانی‘ — رپورٹ کا لب لباب
تحقیقات میں بتایا گیا کہ آبدوز کا ڈھانچہ پہلے سے ہی کمزور تھا، اور کمپنی نے 2022 کے ٹائی ٹینک مشن کے بعد سامنے آنے والی تکنیکی خامیوں پر نہ تو کوئی تفصیلی تحقیق کی، اور نہ ہی ان میں کوئی بہتری لائی۔ کمپنی نے ریئل ٹائم مانیٹرنگ سسٹم سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو بھی نظر انداز کیا، جو ممکنہ حادثے سے قبل اہم انتباہ دے سکتا تھا۔
مزید برآں، کمپنی نے 2023 کے سانحہ خیز مشن سے قبل آبدوز کی حفاظت کے لیے مطلوبہ طریقہ کار کو بھی نظر انداز کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آبدوز کو کسی بھی قسم کی آزاد، سائنسی جانچ یا تکنیکی تصدیق سے نہیں گزارا گیا۔
ریگولیٹری نگرانی سے بچنے کی کوشش
رپورٹ میں ایک اور سنجیدہ الزام یہ لگایا گیا کہ اووشن گیٹ کمپنی نے برسوں تک خود کو ریگولیٹری نگرانی سے بچانے کے لیے مختلف چالاکیاں اپنائیں۔ کمپنی نے اپنے مشنز کو "سائنسی تحقیق” کا نام دے کر ریگولیٹری اداروں کی نظروں سے بچنے کی کوشش کی اور اپنے عملے اور مشاہدہ کاروں پر دباؤ ڈالا کہ وہ خامیوں کو رپورٹ نہ کریں۔
کمیٹی نے کمپنی کے اندرونی ماحول پر بھی سوالات اٹھائے، جہاں آبدوزوں کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات اور ملازمین کی جانب سے خامیوں کی نشاندہی کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔
حادثے کی مختصر تفصیل
یہ المناک حادثہ 19 جون 2023 کو پیش آیا، جب ٹائٹن نامی سیاحتی آبدوز شمالی بحرِ اوقیانوس میں 1912 میں ڈوبنے والے ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے روانہ ہوئی۔ روانگی کے تقریباً ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد، آبدوز سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس وقت آبدوز سمندر کی سطح سے تقریباً چار کلومیٹر گہرائی میں موجود تھی۔
ٹائٹن آبدوز کو امریکی کمپنی اووشن گیٹ ایکسپیڈیشنز نے تیار کیا تھا، جسے 96 گھنٹے تک زیرِ آب رہنے کے قابل قرار دیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے، آبدوز کی کاربن فائبر سے تیار کردہ ساخت اس گہرائی میں دباؤ برداشت نہ کر سکی اور اس میں موجود تمام افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد
اس افسوسناک واقعے میں جاں بحق ہونے والوں میں شامل تھے:
شہزادہ داؤد — پاکستان کی معروف کمپنی اینگرو کے وائس چیئرمین
سلیمان داؤد — شہزادہ داؤد کے 19 سالہ بیٹے
ہمیش ہارڈنگ — برطانوی ارب پتی اور ایوی ایشن کمپنی کے مالک
پال ہنری نارجیولے — فرانسیسی میرین ایکسپلورر
اسٹاکٹن رش — اووشن گیٹ کے بانی اور سی ای او
ریسکیو آپریشن اور ملبے کی دریافت
حادثے کے بعد ایک وسیع ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا، جس میں امریکی کوسٹ گارڈ، کینیڈین نیوی، اور پرائیویٹ کمپنیوں نے حصہ لیا۔ پانچ روز بعد، ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب آبدوز کے ٹکڑے سمندر کی تہہ میں دریافت کیے گئے، جس کے بعد اووشن گیٹ نے پانچوں افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔
اووشن گیٹ کی خاموشی اور مستقبل کے سوالات
حادثے کے بعد اووشن گیٹ نے اپنے تمام آپریشنز معطل کر دیے اور کمپنی کا کوئی ترجمان میڈیا کے سامنے آنے یا تبصرہ کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ تاہم، اب جب کہ امریکی کوسٹ گارڈ نے اس واقعے کی تحقیق مکمل کر لی ہے، تو اووشن گیٹ اور اس جیسے دیگر اداروں کے لیے سخت نگرانی اور ریگولیشن کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو گئی ہے۔
نتیجہ: سبق یا غفلت کا تسلسل؟
ٹائٹن آبدوز کا واقعہ ایک دردناک سانحہ ہے جس نے دنیا کو چونکا دیا۔ لیکن اس کے پس پردہ جو حقائق اب سامنے آ رہے ہیں، وہ مزید چونکا دینے والے ہیں۔ یہ صرف ایک تکنیکی ناکامی نہیں تھی، بلکہ غیر ذمہ دارانہ رویے، ناقص نگرانی، اور خطرناک حد تک خودمختاری کا نتیجہ تھا۔
اب عالمی برادری، خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی اور سیاحت کے سنگم پر کام کرنے والے اداروں، کے لیے یہ واقعہ ایک سبق بننا چاہیے — کہ انسانی جانوں کی قیمت پر تجربات کرنا، خواہ وہ سائنس کے نام پر ہوں یا منافع کے لیے، کسی طور پر قابل قبول نہیں۔