ٹامک ٹوئیاں اور مسائل کا انبار……..ناصف اعوان
آبادی کے تناسب سے صنعت کاری نہیں ہو رہی جو پہلے سے صنعتیں موجود ہیں وہ رُک رُک کر چل رہی ہیں ان میں کچھ بند بھی ہو چکی ہیں وجہ اس کی یہ بتائی جاتی ہے کہ توانائی کا بحران ہے جبکہ کاغذوں میں توانائی کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔
فی الحال ایسا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا کہ جس پر چل کر زندگی پر حاوی مسائل و مشکلات سے نجات حاصل کی جا سکے مگر ہمارے منتخب نمائندے (حکمران) اس سے اتفاق نہیں کرتے لہذا وہ آئے روز سب ٹھیک ہو جائے گا کہہ کر عوام کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ سب کب ٹھیک ہو گا اس بارے کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔
ابھی تو چل سو چل ہے ہر چیز استعمال کی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے بلکہ ہو چکی ہے ۔روزگار کے ذرائع سکڑ سمٹ رہے ہیں۔آبادی کے تناسب سے صنعت کاری نہیں ہو رہی جو پہلے سے صنعتیں موجود ہیں وہ رُک رُک کر چل رہی ہیں ان میں کچھ بند بھی ہو چکی ہیں وجہ اس کی یہ بتائی جاتی ہے کہ توانائی کا بحران ہے جبکہ کاغذوں میں توانائی کا سیلاب آیا ہوا ہے ۔
ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ عوام کو بتایا کچھ ہے اور کیا کچھ ہے۔اب جب عوام ان کو واضح طور سے جان چکے ہیں پہچان چکے ہیں تو انہوں نے بھی روپ بدل لئے ہیں لہجوں اور گفتگوؤں کو نیا انداز دے دیا ہے ۔سطحی پروگراموں اور منصوبوں کا آغاز کر دیا ہے مگر مطلوبہ نتائج تب بھی برآمد نہیں ہو رہے اس کے باوجود وہ بیانات جاری کر رہے ہیں کہ وہ جلد خوشخبریاں سنائیں گے ۔ ماہرین معیشت بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا قرض اتنا بڑھ گیا ہے کہ جسے ادا کرنے کے لئے برسوں درکار ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ ان برسوں میں آئین و قانون کی حکمرانی ہو ۔کرپشن پر کم از کم ساٹھ ستر فیصد تک قابو پالیا ہو ۔ایسا ماحول جنم لے لے کہ جس میں سرمایہ کاروں کے لئے کشش ہو اطمینان و اعتماد ہو مگر جو طرز عمل ہمیں دکھائی دیتا ہے تو اس کے مطابق آئندہ وعدے اور دعوے ہی ہوں گے کرنا کرانا کسی نے کچھ نہیں کیونکہ اہل اقتدار ابھی بھی سرکاری عہدوں کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں انہیں اس امر کی قطعی پروا نہیں کہ غریب عوام کیسےگزر بسر کریں گے یا کر رہے ہیں۔
مگر انہیں اس بات کی ضرور فکر ہے کہ فلاں عہدہ مل جائے فلاں وزارت ہاتھ لگ جائے تو بات بن جائے ۔ہم اپنے کالموں میں اکثر یہ عرض کرتے رہتے ہیں کہ یہ وہ حکمران نہیں جو عوام کےلئے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں یہ تو اپنے مفاد بارے سوچنے والے لوگ ہیں مگر یک طرفہ لکھاری دانشور اور صحافی انہیں اس صدی کے مسیحا قرار دینا چاہتے ہیں اس کا ذکر وہ اپنی تحریروں اور ٹاک شوز میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان کے خیالات سے عوام متاثر نہیں ہو رہے کیونکہ ان کے ساتھ جو بیت رہی ہے وہ وہی جانتے ہیں لہذا وہ اپنی جگہ سے ہِل نہیں رہے اب جب یہ روایتی سیاستدان انہیں ایک بار پھر بیوقوف بنانے اقتدار کی باگ سنبھال چکے ہیں تو وہ ان سے اپنے بنیادی حقوق کے بحال ہونے کی توقع نہیں کر رہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ وہ چراغ نہیں جو روشن ہو سکیں یعنی یہ وہ حکمران ہیں جو ایک خاص کاریگری سے بااختیار ہوئے ہیں لہذا یہ جو خود کو عوام کے خیر خواہ ظاہر کر رہے ہیں اس پر یقین نہیں آرہا ۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں یہ بازی گر دھوکا کھلا
یہ دہرا معیار اب نہیں چلے گا ۔ ستتر برس کا عرصہ کسی ملک و قوم کے لئے کافی ہوتا ہے اس میں ان کی ذہنی پختگی عروج پر ہوتی ہے مگر ہمیں اقتدار والوں نے ہمیشہ بھول بھلیاں میں ہی گھمایا ہے اور مغرب کے زیر اثر رکھنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں اس صورت میں بنیادی ترقی نہیں ہو سکی صنعتیں جس قدر قائم ہونا چاہیں تھیں نہیں ہو سکیں اب تو ہمیں توانائی کی کمی کا سامنا ہے اور روزگار کے ذرائع کا بھی ۔ایک پہلو یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ایک حکومت نے جو اکا دکا منصوبے شروع کر رکھے ہوتے
ہیں انہیں اگلی حکومت جاری رکھنا ضروری نہیں سمجھتی اس سے ان پر اٹھنے والے اخراجات کھوہ کھاتے میں چلے جاتے ہیں ان کی جگہ نئے منصوبے آجاتے ہیں جس سے قومی خزانے کو سخت نقصان پہنچتا ہے مگر کوئی اس حوالے سے نہیں سوچتا ۔حکمران مزے لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنا مقررہ وقت پورا کرکے گھر کی راہ لیتے ہیں ۔یہ تکلیف دہ چکر چلتا جا رہا ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا
یہ اس وقت رکے گا جب عوام اسے روکنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے فی الحال انہیں مہنگائی نے چکرایا ہوا ہے اگرچہ ہمارے باتدبیر مدبر اور ذہین وزیر اعظم اس میں کمی کی نوید دے رہے ہیں مگر انہی معلوم ہو گا کہ مہنگائی مافیا کا اپنا پروگرام ہوتا ہے وہ خود یہ طے کرتا ہے کہ مہنگائی میں کتنے فیصد کمی کرنی ہے یا اضافہ کرنا ہے لہذا حکومت کے ماتحت محکمے جن کا کام مہنگائی پر نظر رکھنا ہوتا ہے چاہیں تو اس مافیا کی سر کوبی کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے کیونکہ مافیا کو بڑے بڑوں کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے لہذا وہ (سرکاری اہلکار) بھی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے جاتے ہیں ۔
بہر حال حقیقت یہ کہ سیاسی عدم استحکام نے معاشی استحکام کو لرزا دیا ہے جس پر غور کم ہی ہو رہا ہے اور یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ موجودہ ”چراغوں“ ہی سے روشنی حاصل کی جائے جبکہ وہ بجھے جا رہے ہیں لہذا یہ اندھیرے کو روشنی میں نہیں بدل سکتے ۔باوجود اس کے اختیارات کی بیٹھکوں میں ان ہی سے امید وفا کی بات ہو رہی ہے ۔
اگر یہ اتنے ہی روشن ہوتے تو یہ جو گندم احتجاج ہو رہا ہے کیوں ہوتا ان میں صلاحیت و اہلیت کا فقدان ہے لہذا گندم نے حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کا موقع فراہم کر دیا اس میں کسان حق بجانب ہیں کہ جب ان کی گندم پر کاری ضرب لگائی جائے گی تو وہ لازمی چیخیں گے بندہ سرکار کے عقل مندوں سے پوچھے کہ جب ملک میں گندم موجود تھی اور آئندہ فصل کی بہتری کا واضح امکان بھی تھا تو کیوں اسے درآمد کیا گیا؟مقصد مبینہ طور سے ذاتی مفاد تھا لہذا گندم ملک میں لائی گئی اب مگر کسان اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں تو باصلاحیت قیادت انہیں گردن سے پکڑ پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے پھینک رہی ہے۔
در اصل موجودہ نظام کی اب گنجائش نہیں رہی اسے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ مختلف بحرانوں کی زد میں ہے ان سے پیچھا چھڑانے کی حکمران جتنی چاہیں کوشش کریں انہیں ناکامی ہو گی وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اسے جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں اور یہ ان کی آخری کوشش ہے جس کا کامیابی سے ہم کنار ہو ممکن نہیں کیونکہ جب عوام کی غالب اکثریت اس نظام سے اور اس کے محافظ حکمرانوں سے اپنا رخ موڑ چکی ہے تو اسے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی لہذا اس نظام کو بدلنا پڑے گا جو اب تک وطن عزیز کو ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہے ! آخر میں نزو علی فرتاش کا شعر
بہار رُک جائے آنگنوں میں
ملے اگر باغبان اچھا