کالمزناصف اعوان

مل کر چلیں گے تو خوشحالی کا سورج طلوع ہو گا

ان کے یک طرفہ رویے کی وجہ ہی سے حکمرانوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ کوئی پابندی لگائیں جبکہ اس میں ان کا مقصد ذاتی بھی ہوتا ہے کیونکہ ذاتی پسند و ناپسند کے تناظر میں ان پر جو تنقید ہو رہی ہوتی ہے

اس وقت دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹی وی چینلوں پر اینکرز تجزیہ کار اور سیاسی جماعتوں کے ”بولنے“ اپنے اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں ان میں زیادہ تر پسند ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں جس سے عام آدمی متاثر ہونے کے بجائے ان سے منہ موڑتا جا رہا ہے کیونکہ جب کوئی کہتا ہے کہ ملک میں مہنگائی نہیں تو وہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اس طرح جب کوئی بے روزگاری اور ناانصافی سے متعلق کہتا ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تو سننے اور دیکھنے والے اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اگر کوئی عقلمند کسی سیاسی جماعت یا اس کے سربراہ کے بارے میں اپنی ذاتی تسکین کی خاطر اپنا بیان جاری کرتا ہے تو اسے ذرا بھی پزیرائی نہیں ملتی لہذا چینلوں پر گرجنے والے افلاطونوں اور ماہرین سماجیات کو ناپ تول کر بات کرنی چاہیے تاکہ ناظرین ملکی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے ذہنی طور سے تیار ہو سکیں۔
ان کے یک طرفہ رویے کی وجہ ہی سے حکمرانوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ کوئی پابندی لگائیں جبکہ اس میں ان کا مقصد ذاتی بھی ہوتا ہے کیونکہ ذاتی پسند و ناپسند کے تناظر میں ان پر جو تنقید ہو رہی ہوتی ہے اس سے وہ خفا ہو جاتے ہیں لہذا وہ چل پڑتے ہیں قینچی لے کر اور کاٹ ڈالتے وہ وہ مواد جو ان کے حق میں نہیں ہوتا ۔بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ دور میں کہنے بولنے کے معیار کا فقدان ہے جو شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مسائل اس قدر گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں کہ اہل قلم اور اہل زبان وبیان کو بھی متاثر کر رہے ہیں دوسرے لفظوں میں عام آدمی کی ترجمانی
کرتے ہوئے وہ جزباتی بھی ہو جاتے ہیں انہیں اپنے اوپر قابو پانے کی مشق و عادت ڈالنی چاہیے جو سماج کے سدھار میں ازحد ضروری ہے ۔ یہ درست ہے کہ لوگوں کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہے وہ ضروریات زندگی کے حصول کے لئے سخت پریشان ہیں تنخواہ دار طبقہ جس کی تنخواہیں قلیل ہیں اور مہنگائی ہر روز بڑھتی ہے جس سے وہ اپنے اخراجات کم کرتے ہوئے بھی اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے مگر اس کی پریشانیوں کو بہ احسن طریق بیان کیا جاسکتا ہے اس سے صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے اس کے بر عکس اہل اختیار اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اپنا رخ دوسری جانب موڑ سکتے ہیں حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ناقدین جو صحت مند بنیادوں پر تنقید کرتے ہیں ان کی بات کو سنیں ناکہ ان کو پابندیوں کی زنجیر سے باندھیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اس طرز عمل سے ان کی مقبولیت میں کمی ہی آتی ہے اس میں اضافہ ہر گز نہیں ہوتا کہنے والے تو اشاروں کنایوں میں بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ویسے حکمرانوں کو اظہار رائے کی آزادی سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ ریاستی طاقت کا استعمال کرکے مطلوبہ نتائج کسی حد تک حاصل کر لیتے ہیں سوال مگر یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران طبقات کو لکھنے اور بولنے والوں سے واقعی کوئی اندیشہ ہائے دور دراز لاحق ہوتا ہے تو پھر انہیں گفتگو کی طرف آنا چاہیے اس سے وہ انہیں اپنا ہم نوا بنا سکتے ہیں مگر یہ بھی ہے کہ گفتگو سے کوئی تب اثر لے گا جب اسے نظر آئے گا کہ جو کہا جا رہا ہے وہ درست ہے یعنی اگر حکمران کہتے ہیں کہ مہنگائی ختم ہو گئی ہے یا ختم ہو رہی ہے انصاف سستا کیا جا رہا ہے ملاوٹ کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے قبضہ گروپوں کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ تو اسے نہیں مانا جا سکتا ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکمرانوں کو پابندیوں کے جنگل سے باہر آکر سوچنا چاہیے
آزادی اظہار رائے بلا تفریق و تخصیص ہونی چاہیے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کوئی شتر بے مہار کی طرح ہو جائے اور جب چاہے کسی کی پگڑی اچھال دی جائے ہم یہاں یہ بھی کہے دیتے ہیں کہ اگر اہل اقتدار چاہتے ہیں کہ ان پر انگلی نہ اٹھے تو انہیں عوام دوست پالیسیاں اور منصوبے متعارف کرانا ہوں گے یہ نظام جس نے عوام پاکستان کو جینے کی راہ سے پرے کر دیا ہے وہ ہر وقت اس سوچ میں غرق رہتے ہیں کہ اگلا دن کیسے گزرے گا؟
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ لوگوں کو آسانیاں اور سہولتیں تو نہ دی جائیں اور جو تھوڑی بہت میسر ہوں وہ بھی سلب کر لی جائیں لہذا اس نظام کو بدلنا ہو گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اشرافیہ موجودہ نظام کو تبدیل کرنا نہیں چاہتی وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کی بڑی بڑی جائیدادیں اس کے مفادات اس کی حکمرانی اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہیں لہذا وہ اتنی سہولتیں دینے کے حق میں نہیں کہ کل وہ اسے ہیرو سے زیرو بنا دیں ۔
جب ایسی سوچ حکمرانوں میں پائی جاتی ہو تو مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں جو ہوتے ہیں وہ آٹے میں نمک برابر تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے عوام یہ نہ کہہ سکیں کہ کچھ نہیں ہو رہا یہ طرز حکمرانی ستتر برس سے ہو رہی ہے اور آئندہ بھی اسے جاری رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ہم نہیں سمجھتے کہ اس میں وہ کامیاب ہو سکیں گے کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے عوام کے شعور و آگہی کا سفر کافی فاصلہ طے کر چکا ‘ کون کیا ہے کس نے ان کے ساتھ اب تک ناانصافی کی کس نے انہیں ذہنی وجسمانی طور سے غلام بنانا چاہا اور کس کس نے انہیں سبز باغ دکھا دکھا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ان سب کو وہ اچھی طرح سے جان پہچان چکے
ہیں لہذا اس تبدیلی کے عمل کو روکنا اب کسی کے بس میں نہیں شاید اسی لئے اس تبدیلی کو ایک حد تک تسلیم کر لیا گیا ہے؟
کہا جارہا ہے کہ برف پگھل رہی ہے اہل اختیار نے معاملات نمٹانے کے لئے سب کا ساتھ لے کر چلنے کا واضح اشارہ دے دیا ہے شاید ان دنوں جو تبدیلیاں اور آزادیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اسی سلسلے میں ہیں لہذا لگ یہ رہا ہے کہ حکمرانوں کو سمجھ آگئی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو کونے میں دبکانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اس کا الٹا اثر ہو رہا ہے کہ اس کی مقبولیت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ان کی کارکردگی بہتر نہیں ہو پا رہی اسی لئے ان پر تنقید بھی ہو رہی ہے حزب اختلاف کو موقع مل رہا ہے خود کو مضبوط بنانے کا لہذا کیوں نہ پینترا بدلا جائے اور اس (پی ٹی آئی) کو شریک سفر کیا جائے یوں بین الاقوامی حالات ان کی حمایت میں ہو سکتے ہیں جس سے بیرونی سرمایہ کار بھی یہاں آ سکتے ہیں مگر انہیں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ان میں خلوص کا ہونا بہت ضروری ہے بصورت دیگر حالات جوں کے توں رہیں گے جو کسی کے فائدے میں نہیں لہذا مکالمہ لازمی ہے ۔
حرف آخر یہ کہ حکمرانوں کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب لوگ مسائل کی چتا میں جلیں گے تو وہ دہائی دیں گے ہی لہذا وہ چاہتے ہیں کہ کہیں سے انہیں کوئی چیخ سنائی نہ دے تو وہ لوگوں کو آسائشیں اور راحتیں فراہم کرنے والے اقدامات کریں پھر ہر طرف خاموشی ہو گی !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button